بھارت دہشت گردی سےمتعلق پاکستانی ڈوزیئر کا جواب دینے میں ناکام رہا، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2020
وزیر خارجہ نے ملتان میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ نے ملتان میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے متعلق چشم کشا ثبوتوں پر مشتمل پاکستانی ڈوزیئر کا جواب دینے میں ناکام رہا ہے۔

ملتان میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارت پہلی مرتبہ دفاعی پوزیشن پر دکھائی دے رہا ہے اور وہ دنیا کو ڈوزیئر کا جواب نہیں دے پا رہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا بحرین کے دارالحکومت ماناما میں پہلی مرتبہ تمام ممالک نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کڑی تنقید کی ہے۔

مزیدپڑھیں: ’آرڈیننس میں کلبھوشن یادیو کی سزا ختم نہیں کی‘

انہوں نے کہا کہ بھارت دفاعی پوزیشن پر ہے اور پاکستان کے خلاف الزامات لگا رہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو تیسری مرتبہ قونصلر رسائی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن بھارت مسلسل تاخیری حربے استعمال کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم آئی سی جے کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے قونصلر رسائی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن بھارت اپنے شہری سے منہ چھپا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حالات بگڑتے جارہے ہیں جبکہ بھارت کا دانش ور طبقہ بھی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر نئی دہلی کی پالیسی سے متفق نہیں ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی نے بابری مسجد کو شہید کرنے اور اس کی جگہ مندر بنانے پر بھارتی رویے کی تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتہا پسندوں کی مذہبی جنونیت کے آگے عدالت نے بھی تمام لوگوں کو بری کردی جنہوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔

انہوں نے کرتارپور سے متعلق کہا کہ بھارت میں موجود سکھوں کو اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہیے کہ پاکستان نے کرتارپور راہداری کے تمام دروازے کھول دیے ہیں تو آپ کیوں بند کررہے ہیں۔

'ماناما میں افغان وزیر خارجہ نے نام لے کر پاکستان کا شکریہ ادا'

افغانستان سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ افغانستان میں افغان صدر اور دیگر اہم عہدیداروں نے پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کی۔

افغان وزیر خارجہ نے ماناما میں نام لے کر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی اجلاس میں فلسطین سے متعلق واضح مؤقف کا اعادہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں آنے والی نئی جوبائیڈن انتظامیہ سفارت کاری کو ترجیح دے گی کیونکہ انہوں نے ماضی میں ایسا ہی کیا تھا۔

انہوں نے ایران پر امریکی حملے سے متعلق کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو اس کے اثرات صرف خطے پر نمایاں نہیں ہوں گے بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔

سرحدی باڑ سے متعلق سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ بھی سرحدی باڑ کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں کام کا آغاز ہوچکا ہے۔

'مریم نواز اور شہباز شریف کا الگ الگ مؤقف ہے'

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز اور شہباز شریف کا الگ الگ مؤقف ہے جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) بھی استعفوں کے معاملے پر الجھن کا شکار ہے۔

انہوں نے ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اموات صفر کی سطح تک آگئی تھیں لیکن اب ایک مرتبہ پھر 50 سے 76 کے قریب اموات یومیہ ہورہی ہیں اور یہ کہہ دینا کہ یہ ایک مسئلہ نہیں ہے حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر آگئی ہے اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہے جبکہ اندازوں کے مطابق جنوری میں یہ وبا مزید بڑھ سکتی ہے، ان حالات میں ملک کے شہریوں، دانشوروں اور میڈیا کو آگاہی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کو حتمی شکل دینے کیلئے پی ڈی ایم سربراہان کا اجلاس 8 دسمبر کو ہوگا

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ لوگ ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، تقریبات میں احتیاط نہیں ہورہی، لوگ معمول کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں تاہم حالات غیرمعمولی ہیں، میری ہر گھرانے اور ذی شعور شہری سے گزارش ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کا خود تحفظ کرنا ہے اس میں سختی نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ ایک رضاکارانہ فیصلہ ہے جو آپ نے خود کرنا ہے۔

انہوں نے درخواست کی کہ ایس او پیز پر عمل کریں، معمول کی سرگرمیوں کو محدود کردیں جبکہ غیرضروری سرگرمیوں کو مؤخر کردیں تاہم کچھ ایسی چیزیں ہیں جو آپ مؤخر نہیں کرسکتے اور وہ کرنا لازمی ہیں۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری اپیل ہوگی کہ آپ اپنے فیصلوں پر نظرثانی فرمائیں اور میڈیا آگاہی میں اپنا کردار ادا کرے جس طرح پہلے کیا تھا اور وہ کافی مؤثر تھا۔

انہوں نے کہا کہ میری رائے میں جہاں جلسہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور سیاسی قیادت کو انسانی جانوں کی قدر کرنی چاہیے تھی وہاں کنٹینرز کی ضرورت نہیں تھی اور میں نے یہ بات کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں بھی رکھی تھی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو جلسہ نہیں کرنا چاہیے تھا جبکہ انتظامیہ کو کنٹینر نہیں لگانے چاہیے تھے کیونکہ جو تعداد تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بڑے شوق سے جاتے اور قلعہ کہنہ قاسم باغ میں جلسہ کرلیتے، میری رائے میں اس کی اجازت ہونی چاہیے تھی اور میں اب بھی یہی کہوں گا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے ان کی سرگرمیوں کو زبردستی نہیں روکنا، تلقین کرنی ہے۔

دوران گفتگو شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ملک میں صحت کی ہنگامی صورتحال نافذ ہے، یا تو آپ یہ کہیں کہ ڈاکٹرز اور ماہرین، این سی او سی کی کمیٹی میں مشاورت کے بعد جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ غلط ہے، سندھ میں آپ جو اسمارٹ لاک ڈاؤن کر رہے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، اگر نہیں ہے تو پھر یہ منطق سمجھ آتی ہے کہ آپ اسے تسلیم نہیں کر رہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر آپ اسے تسلیم کرتے ہیں اور اس کے باوجود سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو یہ دوہرا معیار ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں اس میں آپ کا اور ملک کا بھی فائدہ ہے۔

اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ سیاسی عمل ہوتا رہے گا اور ہم نے سیاسی انداز میں آگے بڑھنا ہے، یہاں کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مجھے محدود کیا گیا اور پکڑوایا گیا لیکن حقائق کبھی چھپتے نہیں ہیں اور اصلیت سامنے آجائے گی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میری سوچ کبھی غیرسیاسی و غیرجمہوری نہیں رہی اور میں اطمینان اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی کی پکڑ دھکڑ یا کسی کی تضحیک میں کسی کو اشارہ کیا ہے، نہ یہ میری سوچ ہے اور نہ ہی یہ ملتان کی روایت ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کی سیاسی ضروریات ہوتی ہیں اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بیان بازی کی جاتی ہے۔

اس موقع پر یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں کی جانب سے کیے جانے والے دعوے سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر وہ الزام لگانا چاہتے ہیں تو میں روک نہیں سکتا لیکن یہ حقائق پر مبنی بات نہیں ہے تاہم اگر وہ ثابت کرسکتے ہیں تو کریں۔

انہوں نے کہا کہ میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کہوں گا لیکن اگر انہوں نے ایسی بات کی ہے تو یہ نامناسب بات ہے۔

ملتان جلسے میں رکاوٹوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت میں ملک میں نہیں تھا تاہم میں سمجھتا ہوں کہ پی ڈی ایم نے جو جلسہ کیا ہے وہ برملا ناکام تھا اور اگر یہ اسٹیڈیم میں چلے جاتے تو یہ بے نقاب ہوجاتے، ان کے پاور شو کی حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں ہوجاتی تاہم میں سمجھتا ہوں جس نے بھی کیا اس نے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ قیادت کی جانب سے بھی واضح ہدایت تھی کہ کوئی تشدد، لاٹھی چارج یا اس قسم کی کارروائی نہیں ہونی۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان میں پی ڈی ایم کا پاور شو، گھنٹہ گھر چوک جلسہ گاہ میں تبدیل

صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے یا گرفتاریوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا ہوا کہ تو غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

شہباز شریف کی جانب سے قومی مکالمے کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت میں فیصلہ کرلیں کیونکہ مریم نواز کا ایک مؤقف ہے اور شہباز شریف جو مؤقف اپنا رہے ہیں وہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا، لہٰذا وہ فیصلہ کریں کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اندر بھی الجھن (کنفیوژن) ہے کہ استعفیٰ دینے ہیں یا نہیں دینے، اگر آپ نے استعفے دینے ہیں تو آپ دے دیں کس نے روکا ہے، 8 دسمبر کو آپ کی قیادت کا اجلاس ہے اس میں فیصلہ کریں اور استعفے دے دیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیر فطری، وقتی الائنس ہے، ان میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں ہے یہ بچاؤ کی کوشش ہے اور یہ پڑاؤ بچاؤ کے لیے ہے جو دیرپا نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں