لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔
لکھاری این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے شعبہ پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے چیئرمین ہیں۔

کورونا وائرس کی صورتحال سنگین ہونے کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتیں چاہتی ہیں کہ طلبہ اپنے گھروں میں ہی رہیں، جبکہ اسکول انتظامیہ کو ہدایات جاری کردی گئیں ہیں کہ وہ آن لائن تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

اسکول جو پہلے ہی ایس او پیز کے تحت کام کررہے تھے اور اس فیصلے نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس فیصلے سے سب سے زیادہ نجی اسکول متاثر ہوئے ہیں۔ فیسوں کی وصولی میں ہونے والی تاخیر، آن لائن تعلیم کے انتظامات، اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنخواہیں، عمارتوں کے کرائے اور دیگر اخراجات ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

اکثر اسکولوں نے مالی مشکلات کا کچھ بوجھ اساتذہ پر منتقل کردیا ہے۔ جیسے آن لائن کلاسوں کے لیے ضروری آلات اور انٹرنیٹ کا بندوبست خود اساتذہ کو کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کو یا تو بغیر نوٹس کے نوکری سے برخاست کیا جارہا ہے یا پھر انہیں نصف تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیے: وہ عظیم اساتذہ، جن کی خدمات پر کبھی کسی نے بات نہیں کی!

چند ایک اسکولوں کے علاوہ نچلے اور متوسط طبقے کے محلوں میں قائم چھوٹے اور درمیانے درجے کے اسکول اکثر خواتین اساتذہ کو نوکری پر رکھتے ہیں۔ اس کی وجوہات معاشی بھی ہیں اور یہ بھی کہ معلمی کے پیشے کو معاشرے میں قبولیت حاصل ہے۔

عمومی طور پر نجی اسکول سرمایہ کاروں اور مالکان کی امیدوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوسط تعلیمی قابلیت رکھنے والی نوجوان خواتین کو ان طالب علموں کی مکمل ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے ذمے کا کام بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہ بغیر وقفے کے ایک کے بعد ایک کلاس لیتی رہتی ہیں۔

اس وبا کے دوران اسکول انتظامیہ نے اپنے تدریسی عملے پر کام کا بوجھ بڑھادیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک جگہ بیٹھ کر کمپیوٹر کے ذریعے کلاس لینا زیادہ موثر طریقہ ہے۔ بہرحال اس خیال پر بحث کی جاسکتی ہے۔

آپ ایک ایسے استاد کا تصور کیجیے جو روزانہ 8 کلاسیں لیتا ہو اور ہر کلاس میں 25 طلبہ ہوں۔ اگر اسے صرف ان طلبہ کا ہوم ورک ہی چیک کرنا پڑے تو اس کا مطلب ہے کہ روزانہ 200 ڈیجیٹل دستاویزات کو دیکھنا اور اگر وہ کلاس کا کام بھی دیکھے تو یہ تعداد دگنی ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو کسی بھی انسان کے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔

کام کے اس قدر بوجھ کی وجہ سے استاد اپنی ذمہ داریاں بخوبی ادا نہیں کرسکتا۔ طلبہ کے کام کو درست طریقے سے چیک نہ کرنے اور ان کو ہوم ورک نہ دینے سے ان کی تعلیمی قابلیت پر اثر پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں استاد سب کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ یعنی جب طلبہ کے کم کام پر ضرورت سے زیادہ تعریف کی جاتی ہے تو وہ اور ان کے والدین بھی مطمئن ہوجاتے ہیں اور اسکول انتظامیہ بھی۔ اگر نقصان ہوتا ہے تو بس تعلیم کا جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔

مزید پڑھیے: تعلیمی اداروں کا کھلنا اور والدین کی بڑھتی پریشانی!

ان اساتذہ کو ملنے والی تنخواہیں بھی خاطر خواہ نہیں ہیں، اور وبا کے دوران معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کو مزید کم کردیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایک بنگلے میں قائم اسکول میں ایک کل وقتی استاد کو ماہانہ 15 ہزار روپے دیے گئے، حالانکہ ایک ناخواندہ سرکاری ملازم کو بھی اس سے دگنی تنخواہ ملتی ہے۔

لیکن کچھ بڑے اور بہتر سمجھے جانے والے اسکولوں میں بھی تنخواہ کا نظام حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بہت سے اسکول آن لائن کلاسوں کے لیے ڈیجیٹل وسائل کے حصول کے لیے اساتذہ کو اضافی رقم ادا نہیں کرتے ہیں۔ پھر والدین اور اساتذہ کی آن لائن میٹنگز جیسے اضافی کام کے لیے بھی اسکول انتظامیہ کی جانب سے معاوضے کی ادائیگی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ ان سب چیزوں کا نتیجہ مایوسی اور حوصلہ شکنی کا شکار تدریسی عملے کی صورت میں نکلتا ہے۔

وبا کے بعد سامنے آنے والے چیلنجز کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو ذہین اور تعلیم یافتہ افراد اسکولوں میں تدریس کے پیشے کو اہمیت نہیں دیتے۔ اساتذہ بھی اس پیشے میں آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جو اساتذہ خود کوشش کرکے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں وہ اپنا مستقبل بہتر بنا لیتے ہیں لیکن اکثر اساتذہ کے حالات ویسے ہی رہتے ہیں۔

اسکول انتظامیہ کی جانب سے بھی اساتذہ کی تربیت پر توجہ نہیں دی جاتی، اور اگر کبھی کسی تربیتی پروگرام کا انعقاد کروایا بھی جائے تو اساتذہ سے اس کا معاوضہ طلب کیا جاتا ہے، یا پھر ان کی تنخواہوں سے پیسے کاٹ لیے جاتے ہیں، اس وجہ سے اساتذہ کے لیے ان تربیتی کورسز میں دلچسپی برقرار نہیں رہتی۔

مزید پڑھیے: آن لائن پڑھانے کا میرا اب تک کا تجربہ

چونکہ نجی اسکولز کے اساتذہ منظم نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی تنظیم ہے، اس لیے وہ مطالبات کے لیے نہ ہی آواز بلند کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے لیے گفت و شنید کرسکتے ہیں۔

اس منظرنامے کو دیکھتے ہوئے مختلف شعبوں میں نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسکولوں کی انتظامیہ کو ضروری کاموں کی انجام دہی کے لیے سہولیات اور مدد کی ضرورت ہے۔ اسکول چلانے کے لیے متعلقہ مالی اور انتظامی امور سے واقفیت مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔

اگرچہ نجی اسکول منافع بخش ادارے کے طور پر کام کرنے کا جواز رکھتے ہیں لیکن انہیں چاہیے کہ وہ اپنے تدریسی عملے کو بھی مناسب تنخواہیں دیں۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے معتبر اور بااعتماد اسکولوں کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہر وقت توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہے، اور موجودہ حالات میں تو یہ اور بھی ضروری ہوجاتا ہے۔


یہ مضمون 8 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sarvi Dec 12, 2020 07:10am
Sir bhara kahu ek elaqa hy Islamabad k 7, yahan to private school waly teachers ko 5000 se b km salary dyty hn, or low qualification ko prefer krty hn teacher k hwaly se, or khud ye log theeek earn krty hn Private school se