فنڈز میں کمی کے سبب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا خدشہ

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2020
فنڈز میں کمی کے سبب سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تاخیر کا خدشہ ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
فنڈز میں کمی کے سبب سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں تاخیر کا خدشہ ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو کے ذریعے وزارت خزانہ نے تمام وزارتوں، ڈویژنز اور تمام سرکاری اداروں کے سربراہوں کو خبردار کیا ہے کہ ان کے اکاؤنٹس میں فنڈز ناکافی ہونے کی صورت میں ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوسکتی ہے اور انہیں روکا جا سکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیو نے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا کہ کچھ سرکاری محکموں اور دفاتر نے موجودہ مالی سال کے لیے ملازمین سے متعلق اخراجات کی ضروریات کو پورا کرنے کے حساب میں ناکافی بجٹ رکھا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس مشق کے نتیجے میں بجٹ میں مختص رقم سے زیادہ اضافی اخراجات ہوسکتے ہیں، اس طرح وفاقی حکومت کے دانشمندانہ بجٹ اور نقد انتظامی معاملات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ایک دن کام کرنے کی 14 لاکھ روپے تنخواہ، اس سے بڑھ کر اور کیا ڈاکا ہوسکتا ہے؟'

اس کے جواب میں وزارت خزانہ نے تمام وزارتوں، ڈویژنز اور دیگر پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کے سیکریٹرز اور محکموں کے سربراہوں کو ایک نوٹیفکیشن بھیجا کہ ان کے اکاؤنٹس میں فنڈز ناکافی ہونے کی صورت میں ان کے ملازمین کو تنخواہوں میں تاخیر یا تنخواہ روکے جانے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں تمام سیکریٹریز اور پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کو آگاہ کیا گیا کہ فنانس ڈویژن نے اے جی پی آر کے ساتھ مشاورت سے مالی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مختصر حکمت عملی تیار کی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ تمام اخراجات مختص اور جاری کردہ بجٹ میں کیے جائیں، بجٹ طریقہ کار کے تحت دستیاب فنڈز کے علاوہ اکاؤنٹنگ دفاتر کی جانب سے کوئی اخراجات منظور نہیں کیے جائیں گے۔

اس حکمت عملی کے تحت اگر فنڈز کم ہوں تو بجٹ کے عمل کے ذریعے فنڈز کے انتظام کے لیے اکاؤنٹنگ دفاتر متعلقہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران اور نامزد ڈرائنگ افسران کو الرٹ جاری کریں گے۔

وہ تمام ڈویژن، محکمہ اور دفاتر جن کو ای آر ای سربراہوں کے تحت ناکافی رقم مختص کی گئی ان کو پہلے مرحلے میں پے رول سے اضافی پے رول پر منتقل کیا جائے گا، اس کے نتیجے میں ملازمین کی طرف سے تنخواہوں کی وصولی میں تاخیر ہوگی، دوسرے مرحلے میں تنخواہوں کی ادائیگی بند کردی جائے گی اور اکاؤنٹنگ دفاتر کے ذریعے ای آر ای ہیڈز میں بجٹ کی دستیابی تک کسی بھی دعوے پر کارروائی نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے سے متعلق من گھڑت خبریں پھیلائی گئیں'

اسپیشل سیکریٹری خزانہ اور ترجمان کامران علی افضل نے کہا کہ نئی حکمت عملی پبلک فنانس مینجمنٹ (پی ایف ایم) ایکٹ 2019 کے تحت مالی اصلاحات کا حصہ ہے جس کے تحت پی اے اوز کو ان کے مختص فنڈز کا اختیار دیا گیا تھا اور انہیں اتھارٹی کی طاقت دی گئی تھی اور ذمہ داری کے ساتھ متوازن بنایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تمام پرنسپل اکاؤنٹس افسران مالی حکمت عملی اور نظم و ضبط کے اصول سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اور رہنمائی اور آگاہی مہمات کے ذریعے کسی حد تک ان کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہو گی، انہوں نے فنڈز کی کمی کو مسترد کیا لیکن مشاہدہ کیا کہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو پی ایف ایم اصلاحات کے مطابق مالی کاروائیوں پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔

وفاقی حکومت کے تمام پرنسپل اکاؤنٹس افسران اور اکاؤنٹنگ دفاتر سے کہا گیا کہ وہ مالی سال کے دوران پی ایف ایم ایکٹ کی دفعات اور بہتر مالی اور بجٹ مینجمنٹ کے لیے نئی حکمت عملی کی مکمل تعمیل کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں