شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کا فیصلہ دے دیں گے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2020
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ برطرفی کے خلاف دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کو اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی بار کی درخواستوں پر اعتراضات سے متعلق وکلا کو آگاہی نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف شوکت عزیر صدیقی کی درخواست پر سماعت کی۔

بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو خط

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑا کیس ہے، چاہتے ہیں کہ وکلا کو تسلی سے سن کر فیصلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ بینچ اگر 4 اراکین سے زیادہ ہو تو معمول کے مقدمات متاثر ہوتے ہیں، جس پر شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے موکل شوکت عزیز صدیقی اگلے سال ریٹائر ہو جائیں گے، چاہتے ہیں کیس کا فیصلہ جلد ہو جائے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے کیس کا فیصلہ دے دیں گے۔

سماعت کے دوران کراچی بار ایسوسی ایشن کے وکیل رشید اے رضوی نے مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواستیں مقرر نہ کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رجسٹرار آفس کے مطابق درخواستوں میں استعمال کی گئی زبان درست نہیں۔

اس پر رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ اعتراضات سے متعلق آگاہ کیا جائے تا کہ دوبارہ درخواست دائر ہو سکے۔

ساتھ ہی اسلام آباد بار کے وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ میری ترمیمی درخواست بھی مقرر نہیں کی گئی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تمام درخواست گزاروں کو اعتراضات سے آگاہ کر دیا جائے گا۔

بعد ازاں عدالت نے رجسٹرار آفس کو کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی بار کی درخواستوں پر اعتراضات سے متعلق وکلا کو آگاہی نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی کیس کی سماعت کو آئندہ برس جنوری تک ملتوی کردیا گیا۔

خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔

بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جبکہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی کہ وہ (شوکت عزیز صدیقی) 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں