کراچی: عدالت کا آرزو کے مبینہ شوہر کے خلاف 'ریپ' کی دفعہ شامل کرنے کا حکم

09 دسمبر 2020
جج نے ٹرائل کے آغاز کے لیے معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) کو بھیج دیا — فائل فوٹو / اے پی
جج نے ٹرائل کے آغاز کے لیے معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) کو بھیج دیا — فائل فوٹو / اے پی

جوڈیشل مجسٹریٹ نے کم عمر مسیحی لڑکی آرزو راجا کی مسلم شخص سے شادی سے متعلق کیس میں مرکزی ملزم کے خلاف ریپ کی دفعہ بھی شامل کردی۔

خیال رہے کہ آرزو نے مبینہ طور پر اسلام قبول کیا تھا اور مرضی سے سید علی اظہر سے شادی کی تھی۔

جج نے آرزو کے مبینہ شوہر سید علی اظہر، مولوی قاضی عبدالرسول نقشبندی، شادی کے سہولت کاروں اور گواہان کے خلاف سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 3 کے تحت مقدمہ درج کرنے کا بھی حکم دیا۔

مجسٹریٹ نے مفرور ملزمان اظہرالدین، دانش اور حبیب کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے۔

جج نے ٹرائل کے آغاز کے لیے معاملہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) کو بھیج دیا۔

یہ بھی پڑھیں: آرزو کی مسلم شخص سے شادی قانون کے مطابق ہے، وکیل دفاع

بدھ کو سماعت کے دوران جج نے کہا کہ کیس کے تفتیشی افسر کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے 2014 کے ایک حکم کے مطابق مذہبی کی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے سوال کا تعین کریں، جس کا معاملہ دلائل کے دوران شکایت کنندہ کے وکیل نے اٹھایا تھا۔

پولیس نے سید علی اظہر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کے دو بھائیوں سید شارق علی اور سید محسن علی، ایک دوست دانش کو 13 سالہ لڑکی کے مبینہ طور پر اغوا، زبردستی مذہب تبدیلی اور مسلمان شخص سے شادی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

پولیس نے مولوی قاضی عبدالرسول، جنید علی صدیقی اور محمود حسان کے خلاف بھی کم عمر لڑکی کی شادی کے لیے سہولت کاری کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا تھا، ملزمان نے عبوری ضمانت حاصل کرلی تھی جبکہ سید علی اظہر حراست میں ہے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) محمد علی دَل نے بدھ کو فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کے تفتیشی افسر کی چارج شیٹ پر فیصلہ سنایا۔

مزید پڑھیں: دارالامان میں آرزو راجا کی دیکھ بھال کیلئے سماجی بہبود کی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم

اپنے 20 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں جج نے کہا کہ ریکارڈ پر موجود مواد کی روشنی میں ملزم سید علی اظہر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ پر سزا) اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کے سیکشن 3 کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ملزم کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 201 کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ قاضی عبدالرسول، سہولت کار اظہرالدین، گواہان محمد دانش، حبیب، محمود حسین اور جنید علی صدیقی کے خلاف چائلڈ میرج ایکٹ کی دفعہ 4 کو شامل کیا جانا چاہیے۔

مجسٹریٹ نے سید علی اظہر کے خلاف تفتیشی افسر کی چارج شیٹ منظور کر لی اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ پر سزا) اور 201 اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کا سیکشن 3 شامل کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: 'اغوا اور مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ': آرزو کی عمر 14سال ہے، میڈیکل بورڈ

قاضی عبدالرسول، سہولت کار اظہرالدین، گواہان محمد دانش، حبیب، محمود حسین اور جنید علی صدیقی کے خلاف چائلڈ میرج ایکٹ کی دفعہ 4 شامل کرنے کی بھی ہدایت کی۔

تاہم جج نے کہا کہ چونکہ مشتبہ ملزمان شارق علی اور دانش کے خلاف ٹرائل کے آغاز کے لیے کوئی ثبوت پیش کیے گئے، اس لیے انہیں وقتی طور پر کیس سے ڈسچارج کیا جاتا ہے۔

مجسٹریٹ نے ٹرائل کے آغاز کے لیے کارروائی کا ریکارڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) کو بھیج دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں