امریکی ثالثی میں مراکش بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر متفق

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
ٹرمپ نے ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے تعلقات قائم کروائے تھے —فوٹو: اے پی
ٹرمپ نے ستمبر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے تعلقات قائم کروائے تھے —فوٹو: اے پی

امریکا کی ثالثی میں مراکش اور اسرائیل نے تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کے ساتھ مغربی صحارا میں مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا ہے جہاں الجیریا کے ساتھ اس کا دہائیوں سے تنازع چل رہا ہے جبکہ خودمختار ریاست کے لیے بھی جدوجہد ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں: بحرین اور امارات کے اسرائیل سے تعلقات کیلئے معاہدے پر دستخط

امریکی سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے مراکش کے فرماں روا محمد ششم کے ساتھ فون پر معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔

معاہدے کے تحت مراکش مکمل سفارتی تعلقات اور سرکاری سطح پر اسرائیل کے ساتھ رابطے قائم کرے گا، فضائی حدود میں پروازوں کی اجازت کے ساتھ اسرائیل اور تمام اسرائیلیوں کے لیے پروازوں کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیرڈ کُشنر کا کہنا تھا کہ 'وہ رباط اور تل ابیب میں فوری طور پر رابطہ دفاتر کھولنے جارہے ہیں جس کا مقصد سفارت خانے کھولنا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ اسرائیل اور مراکش کی کمپنیوں کے درمیان معاشی رابطوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرنے جارہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج انتظامیہ نے ایک اور سنگ میل عبور کرلیا ہے، صدر ٹرمپ نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے لیے ثالثی کی جو اسرائیل کے ساتھ عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ چار مہینوں کے اندر چوتھا معاہدہ ہے'۔

جیرڈ کشنر کا کہنا تھا کہ 'گو کہ اس اقدام کے ساتھ مراکش اپنے یہودی شہریوں کے ساتھ اپنے طویل تعلق اور اسرائیل سمیت پوری دنیا کے ساتھ تعلق کو مضبوط کر رہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'

ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے اسرائیل کی سیکیورٹی مزید بہتر ہوگی جبکہ مراکش اور اسرائیل کو اپنے معاشی تعلقات اور شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا'۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور مراکش کے بادشاہ کے درمیان فون کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے 'مراکش کو اپنے تعاون اور مغربی صحارا میں حقیقت پر مبنی خود مختاری کی تجاویز کی حمایت کا یقین دلایا جو پائیدار ہوگی'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'صدر نے مغربی خطے میں مراکش کی خودمختاری کو بھی تسلیم کرلیا ہے'۔

یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات نے رواں برس اگست میں اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تھے اور دہائیوں سے جاری عرب ممالک کی پالیسیوں کے برعکس اپنا فیصلہ سنایا تھا جبکہ فلسطینیوں سمیت دیگر مسلم ممالک اور اداروں کی جانب سے شدید غصے کا اظہار کیا تھا۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے اگست میں اعلان کیا تھا کہ وہ تعلقات کو معمول پر لائیں گے جبکہ حکومتی سطح پر بینکنگ، کاروباری معاہدوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طویل مدت سے جاری بائیکاٹ کو ختم کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کی پہلی مسافر پرواز اسرائیل پہنچ گئی

بعد ازاں قریبی ملک بحرین نے بھی 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے یو اے ای کے ساتھ مل کر معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین وہ تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ مصر اور اردن بالترتیب 1979 اور 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدات پر دستخط کرچکے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے11 ستمبر کو اسرائیل اور بحرین کے درمیان امن معاہدے کا اعلان کیا تھا اور بحرین نے متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

امریکی صدر نے اسے تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل اور بحرین صحیح معنوں میں سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔

انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سفارتخانوں اور سفارتکاروں کا تبادلہ کریں گے، دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازوں کا آغاز ہو گا اور تعلیم، صحت، کاروبار، ٹیکنالوجی، سیکیورٹی اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کا آغاز کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں