پاکستان: 'دوران زچگی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 186 کی موت ہوجاتی ہے'

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
حکومت 2030 تک شرح اموات کو ایک لاکھ میں سے 70 تک لانا چاہتی ہے—فائل فوٹو: یو این ایف پی اے پاکستان
حکومت 2030 تک شرح اموات کو ایک لاکھ میں سے 70 تک لانا چاہتی ہے—فائل فوٹو: یو این ایف پی اے پاکستان

اگرچہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتیں اس کوشش میں ہیں کہ ملک میں زچہ و بچہ کی اموات کی شرح کو کم کیا جائے اور اس میں کچھ بہتری بھی آئی ہے لیکن اس باوجود ملک میں اب تک ہر ایک لاکھ میں سے 186 خواتین زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 10 دسمبر کو دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں پاکستان میٹرنل میٹرنٹی سروے (پی ایم ایم ایس) رپورٹ جاری کی گئی۔

تقریب سے صدر مملکت عارف علوی سمیت وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان، سیکریٹری وفاقی صحت اور اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق ذیلی ادارے یو این پاپولیشن فنڈ، یو ایس ایڈ و بل اینڈ ملنڈا گیٹس تنظیم کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔

یہ سروے پاکستان میٹرنل میٹرنٹی سروے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز نے کیا تھا اور سروے ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر سمیت وفاقی حکومت کے ماتحت علاقوں میں بھی کیا گیا۔

سروے رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ گزشتہ 30 سے 29 سالوں میں پاکستان میں زچگی کی سہولیات و طبی امداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو زچہ و بچہ کی اموات کو روکنے کے لیے اہم ہے، تاہم اس کے باوجود ملک میں زچگی کے دوران اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

تقریب میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سمیت عالمی تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی—فوٹو: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن
تقریب میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سمیت عالمی تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی—فوٹو: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن

رپورٹ کے مطابق 1990 میں ملک میں زچگی کیسز کو دیکھنے والے افراد کے پاس تربیت کا فقدان تھا اور ملک میں محض 19 فیصد افراد ہی تربیت یافتہ تھے مگر اب یہ شرح 91 فیصد تک جا پہنچی ہے اور کیسز دیکھنے والے افراد نے کافی مہارت حاصل کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: ماؤں کی شرح اموات، پاکستان 149ویں درجے پر

اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1990 تک زچگی کیسز کے لیے صحت کی سہولیات 14 فیصد تھیں جو اب بڑھ کر 71 فیصد تک جا پہنچی ہیں اور یقینا یہ اچھی کامیابی ہے۔

رپورٹ میں جہاں زچگی کیسز دیکھنے والے افراد کے تربیت یافتہ ہونے اور صحت کی سہولیات میں بہتری کا اعتراف کیا گیا ہے، وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تاہم اس کے باوجود ملک میں زچگی کے دوران اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔

اس وقت ملک میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 186 خواتین زچگی کے دوران منہ میں چلی جاتی ہیں جب کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا منصوبہ ہے کہ 2030 تک اس شرح کو ایک لاکھ میں سے 70 تک پہنچایا جائے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ زچگی کے کیسز دیکھنے والے افراد کی تربیت میں بہتری اور صحت کی سہولیات میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملے میں کچھ بہتری آئی ہے، تاہم اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سروے رپورٹ میں زچگی اموات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک حصے میں ان اموات کو شامل کیا گیا ہے جو طبی پیچیدگیوں کے باعث ڈیلیوری کے دوران ہوئیں اور دوسری اموات کو بچے کی پیدائش سے قبل یا پیدائش کے 42 روز بعد کی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں زچگی کے دوران زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والی زیادہ تر خواتین ڈیلیوری کے دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث جاں بحق ہوجاتی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوران زچگی طبی پیچیدگیوں کے باعث خواتین کی ہونے والی اموات میں ہائی بلڈ پریشر اور ڈیلیوری سے قبل یا بعد میں خواتین سے خون کے مسلسل اخراج جیسے مسائل سب سے بڑے ہیں۔

تاہم ساتھ ہی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں سے 90 فیصد اموات طبی پیچیدگیوں کے باعث ہوجاتی ہیں۔

زچگی کے دوران اموات کا شکار ہونے والی خواتین میں 15 سے 49 برس کی خواتین شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں