ٹرمپ کی آخری امید بھی دم توڑ گئی، سپریم کورٹ سے بھی اپیل مسترد

12 دسمبر 2020
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آخری امید بھی دم توڑ گئی— فائل فوٹو: اے پی
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آخری امید بھی دم توڑ گئی— فائل فوٹو: اے پی

امریکی سپریم کورٹ نے 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں رہنے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آخری کوشش کو ناکام بنا دیا۔

عدالت نے جمعہ کی شام اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل سوم کے تحت نقائص پر مبنی ہونے کے سبب شکایات کا بل داخل کرنے کی تحریک رد کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: بائیڈن کے امریکا میں پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟

اس فیصلے نے اس بات کو تقریباً یقینی بنا دیا ہے کہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے جمہوری حریف جو بائیڈن 46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔

ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پکسٹن کے ذریعے دائر کردہ قانونی چارہ جوئی میں مطالبہ کیا گیا کہ چار ریاستوں پینسلوینیا، جارجیا، مشی گن اور وسکونسن میں 10 ملین ووٹوں کو کالعدم قرار دیا جائے، ان چاروں ریاستوں میں جو صدر ٹرمپ ہار گئے تھے، 50 امریکی ریاستوں میں سے 17 اور 120 ری پبلکن قانون سازوں نے بھی اس اقدام کی حمایت کی۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ ٹیکساس نے جس طرح سے انتخابات کا انعقاد کیا ہے اس میں عدالتی طور پر سنجیدہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس حیثیت میں نقائص پر مبنی ہونے کی وجہ سے شکایت رد کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ ہار نہیں مانیں گے، شکست پر لڑ پڑیں گے، سابق اہلیہ

اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹرمپ نے ہفتے کے اوائل میں اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے لئے ٹوئٹر پر جاکر ایک بار پھر غلط دعویٰ کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

انہوں نے عدالتی فیصلے کے گھنٹوں بعد ٹوئٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے واقعتا ہمیں مایوس کیا ہے، اس میں کوئی حکمت، کوئی جرات نہیں۔

انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ آپ امریکا کے صدر ہیں اور آپ نے ابھی ایک ایسے الیکشن میں حصہ لیا جہاں آپ کو تاریخ کے کسی بھی صدر کی نسبت زیادہ ووٹ ملے اور اس کے باوجود آپ ہار گئے۔

اگرچہ صدر ٹرمپ انتخابی دن سے ہی ووٹوں کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کی اور ان کے حلیفوں کے لیے یہ اب تک کی اور سب سے اہم قانونی شکست ہے۔

بدھ کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ ٹیکساس کا مقدمہ بہت بڑا ہے اور ان کے حق میں فیصلے کی امید کر رہے ہیں، ہم ٹیکساس (اس کے علاوہ بہت سی دوسری ریاستوں) کے معاملے میں مداخلت کریں گے، یہ سب سے بڑی بات ہے، ہمارے ملک کو فتح کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے 2024 کے صدارتی انتخابات لڑنے کا عندیہ دے دیا

پکسٹن کی تحریک نے ججوں سے مطالبہ کیا کہ وہ چار ریاستوں میں رائے دہندگی کی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے وقت دیتے ہوئے انتخابی سرٹیفیکیشن کی آخری تاریخ 14 دسمبر تک بڑھا دیں، ٹیکساس کی حمایت میں سترہ دیگر ریاستوں نے بھی سپریم کورٹ میں ایک مختصر درخواست دائر کی تھی، ان میں الاباما، آرکنساس، فلوریڈا، انڈیانا، کینساس، لوزیانا، مسی سیپی، مونٹانا، نیبراسکا، شمالی ڈکوٹا، اوکلاہوما، ساؤتھ کیرولینا، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹینیسی، یوٹاہ اور مغربی ورجینیا شامل ہیں جہاں سے 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی۔

امریکی ایوان نمائندگان میں ریپبلکن قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ ساتھ اقلیتی رہنما کیون میک کارتی اور اقلیتی وہپ اسٹیو اسکلیس نے بھی اس اقدام کی حمایت کی ہے۔

مشی گن نے اپنے جواب میں لکھا کہ یہاں جو چیلنج درپیش ہے اس کی مثال نہیں ملتی، اس کوئی حقیقی یا قانونی بنیاد نہیں ملتی۔

پنسلوانیا نے کہا کہ یہ مقدمہ 'عدالتی عمل کا مکروہ سلوک' ہے اور عدالت سے استدعا ہے کہ ایک واضح پیغام دے کہ اس طرح کی زیادتی کو کبھی دوبارہ دہرایا نہیں جانا چاہیے۔

انتخابی میدان جنگ میں سب سے زیادہ متنازع ریاست جارجیا نے لکھا ٹیکساس کے دعوے جارجیا میں ریاستی اور وفاقی عدالتوں میں پچھلے ہفتوں کے دوران لگائے گئے متعدد مقدمات سے مختلف نہیں ہیں اور اس میں سے کوئی بھی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست: امریکی حکومت نے ٹک ٹاک پر پابندی روک دی

پنسلوینیا جس میں متنازع ترین ریاستوں میں سب سے زیادہ 20 الیکٹرز ہیں، نے لکھا کہ آئین کے متن، تاریخ یا ڈھانچے میں کوئی بھی چیز ٹیکساس کے اس نظریے کی تائید نہیں کرتی کہ وہ طے کرسکتے ہیں کہ مشترک ریاستوں کے انتخابات کو کس طرح منعقد کیا جانا چاہیے اور ٹیکساس کو اس لیے کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ وہ ان انتخابی نتائج کو ناپسند کرتا ہے۔

یہاں تک کہ اوہائیو جہاں سے صدر ٹرمپ نے جیت حاصل کی تھی، اس نے بھی ٹیکساس کی تحریک کی مخالفت کی، اس نے لکھا کہ ٹیکساس کے ذریعے جو ریلیف کی تلاش ہے وہ ہمارے فیڈرلسٹ نظام کی اس بنیاد کو نقصان پہنچائے گی، جو یہ ہے کہ ریاستیں خود مختار ہیں، خود حکومت کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

نچلی عدالتیں پہلے ہی ٹرمپ مہم کی جانب سے درجنوں مقدموں اور اپیلوں کو مسترد کر چکی ہیں، جو صدر اور ان کے حامیوں کو مجبور کررہی ہیں کہ وہ سپریم کورٹ سے امیدیں وابستہ کر لیں۔

اس سے قبل جمعہ کے روز ٹرمپ نے عدالت عظمیٰ سے قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا تھا، انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بڑی دانشمندی اور ہمت کا مظاہرہ کرے گی تو امریکی عوام شاید تاریخ کا سب سے اہم مقدمہ جیت لیں گے اور ہمارے انتخابی عمل کا ایک بار پھر احترام کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کرکے 'ہراساں' کیا جا رہا ہے، ایوانکا ٹرمپ

صدر نے کہا ہے کہ وہ نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی لیکن ٹرمپ کے امریکی اٹارنی جنرل بل بار نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ محکمہ انصاف نے اب تک بڑے پیمانے پر ووٹروں کی دھوکہ دہی کے کوئی ثبوت نہیں دیکھے ہیں۔

ریپبلکن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی ٹرمپ کی ہار کو تسلیم کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں