ماہرین کا کراچی کی فضائی آلودگی میں اضافے کا انتباہ

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2020
شہر کا عمومی ایئر کوالٹی انڈیکس  101 سے 150 ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
شہر کا عمومی ایئر کوالٹی انڈیکس 101 سے 150 ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: قدرتی امر ہے کہ موسم سرما کے دوران فضائی آلودگی میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن کراچی کی فضا کا معیار پورے سال ہی خراب رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس کی بہتری کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے تو فضائی آلودگی کا معیار مزید بگڑ سکتا ہے۔

این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر کے تکنیکی مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے انجینئر دانش خان نے کہا کہ 'اس وقت شہر میں فضا کا معیار چیک کرنے والا کوئی سرکاری میکانزم موجود نہیں ہے اور نجی طور پر حاصل کیا جانے والا ڈیٹا بڑی حد تک قابل بھروسہ ہے۔

یہ بھی دیکھیں: کراچی میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی سے شہری پریشان

ان کے مطابق شہر میں 3 مقامات پر فضا کا معیار جانچنے والے آلات کام کررہے ہیں ان میں ایک کراچی پریس کلب کے نزدیک، دوسرا امریکی قونصل خانے جبکہ تیسرا ملیر کنٹونمٹ کے علاقے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی ایک ٹیم ایک سال سے زائد عرصے سے کراچی کی فضائی آلودگی پر ایک تحقیق کی مد میں فضائی معیار کی نگرانی کررہی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ 'رواں برس کووِڈ 19 کے باعث لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے عرصے کو نکال کر شہر کی فضا کا معیار زیادہ تر 'غیر صحت بخش' رہا۔

غیر صحت بخش سے مراد شہر کا عمومی ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 101 سے 150 ہے جس میں یہ زیادہ تر بلند اشاریوں کی طرف رہا اور پیک آورز کے دوران اس میں مزید اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ

عالمی سطح پر اے کیو آئی کو 0 سے 50 کے درمیان بہترین فضا مانا جاتا ہے، 51 سے 100 تک کا اے کیو آئی صحت کے حوالے سے حساس افراد کے لیے معمولی سے درمیانے صحت خدشات کا باعث بن سکتا ہے جبکہ 101 سے 150 تک کے اے کیو آئی کو حساس افراد کے لیے غیر صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ 151 سے 200 تک کے اے کیو آئی کو ہر ایک کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے جس میں حساس افراد کے مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جبکہ 201 سے 300 تک کا اے کیو آئی صحت کے خطرے کی علامت بن جاتا ہے جبکہ 300 سے 500 اے کیو آئی خطرناک ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی صحت کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے جس سے دنیا بھر میں ہر سال 20 لاکھ افراد کی قبل از وقت موت ہوجاتی ہے۔

فوری اقدامات

انوائرنمینٹل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ این ای ڈی کے چیئرمین انجینئر علی مصطفیٰ نے فضائی معیار کو جانچنے کے لیے حکومتی میکانزم کی ضرورت پر زور دیا تا کہ فضائی آلودگی کو قابو کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا بھر میں حکومتی ادارے عوام کے فائدے کے لیے فضائی معیار کی نگرانی اور اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں، کراچی میں صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے کیوں کہ فضائی صورتحال کی نگرانی، گاڑیوں اور صنعتی اخراج کو قانون کے مطابق بنانے میں حکومتی کردار غائب ہے۔

یہ بھی دیکھیں: دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کراچی سرفہرست

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور اس کی ریگولیٹری اداروں کو فعال بنانے کی شدید ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سڑکوں کی عدم دیکھ بھال اور مرمت، کچرا ٹھکانے لگانے کے نظام کی عدم موجودگی جس کی وجہ سے لوگ کچرا جلا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ صنعتی اخراج فضائی آلودگی میں کردار ادا کررہا ہے'۔

سیپا غائب

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے فضائی معیار جانچنے کے 3 اسٹیشنز کو سپریم کورٹ کے بنائے گئے واٹر کمیشن کی مداخلت پر 12018 میں فعال کیا گیا تھا لیکن وہ اب مرمت کے متقاضی ہیں اور 2 سال سے بے کار ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2007 میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جے آئی سی اے) کے تعاون سے کراچی میں 3 مانیٹرنگ یونٹس لگائے گئے تھے لیکن سیپا کا فضائی معیار کو جانچنے کا کام اس وقت سے ہی ڈانواں ڈول ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انوائرنمینٹل ادارے نے نہ تو کبھی اپنے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا اور نہ ہی مستقبل میں فضائی آلودگی کی سچح کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کی اور نہ ہی (اعداد و شمار کی روشنی میں) آلودگی کم کرنے کے اقدامات اٹھائے۔

تبصرے (0) بند ہیں