ڈی این اے سے ڈینیئل پرل کی لاش کی شناخت ہوئی تھی، وکیل کا انکشاف

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2020
ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان
ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل کیس کی سماعت کے دوران امریکی صحافی کے والدین کے وکیل نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈینیئل پرل کی لاش کا ڈی این اے ہوا تھا جس سے اس کی شناخت ہوئی تھی۔

منگل کو سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی بریت اور سزا کم کرنے کے خلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کے اعتراف جرم پر سوالات اٹھا دیے

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی جس میں سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کیے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملزمان عادل شیخ اور فہد نسیم کے بیانات کو ملا کر پڑھا جائے، ملزمان کے بیان میں مماثلت ہے جبکہ ملزمان افغانستان اور انڈیا میں بھی رہے۔

انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں ڈینیئل پرل کو دیکھا جا سکتا ہے جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے پوچھا کہ ویڈیو کس ذرائع سے سامنے آئی، کچھ معلوم نہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا کسی گواہ نے ویڈیو دیکھ کر ڈینیئل پرل کی تصدیق کی، ٹیکسی ڈرائیور کے علاوہ ڈینیئل پرل کو دیکھنے والا کوئی گواہ نہیں۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور

جسٹس سردار طارق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون کے مطابق پہلے پروسیکوشن نے اپنا کیس بنانا ہے، ٹیکسی ڈرائیور نے بیان میں کہا کہ مجھے گرفتار کیا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 23 جنوری کو ڈینیئل پرل اغوا ہوا، ملزمان نے نام بدل کر ہوٹل میں کمرہ لیا، عدالت تمام شواہد کو ملا کر دیکھے تو پروسیکیوشن کا کیس مضبوط ہے۔

حکومت سندھ کے وکیل نے کہا کہ مقتول ڈینیئل پرل کی لاش مل جاتی تو تمام کڑیاں مل جاتیں۔

جسٹس یحیٰ خان نے کہا کہ ویڈیو کے حوالے سے شواہد کا لنک ٹوٹ رہا ہے، وڈیو کو کسی ملزم نے چیلنج نہیں کیا۔

دوران سماعت ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں بار بار ایک ہی غلطی کو دہرایا جا رہا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی غلط لکھا کہ مقتول کی لاش نہیں ملی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس: مقتول کی اہلیہ کا تفتیش میں شامل نہ ہونا بدقسمتی ہے، سپریم کورٹ

انہوں نے کہا کہ ڈینیئل پرل کی لاش ملی اور ڈی این اے بھی ہوا جس سے ڈینیئل کی لاش کی شناخت بھی کی گئی۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کے تحریری دلائل کا جائزہ لینے کے بعد کل آپ کو سنیں گے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی اور کل سے ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی اپنے دلائل دیں گے۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں