سیمنٹ کے شعبے میں تجارتی گٹھ جوڑ اور بھاری منافع کمانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2020
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صارفین کو 40ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے— فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صارفین کو 40ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے— فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی منگل کو حتمی شکل پانے والی انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سیمنٹ کے شعبے میں تجارتی گٹھ جوڑ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر منافع کمایا گیا۔

انکوائری رپورٹ کو آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے نارتھ زون میں سیمنٹ یونٹوں کے لیے حتمی شکل دی گئی ہے کیونکہ سندھ ہائی کورٹ نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان کو جنوبی زون (سندھ) میں سیمنٹ کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپوں سے جمع کردہ مواد کے استعمال سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: مسابقتی کمیشن پاکستان نے سیمنٹ بنانے والوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا

انکوائری رپورٹ میں سیمنٹ کمپنیوں کے دفاتر اور آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے لاہور میں قائم صدر دفتر سے اکٹھے کیے گئے تمام الیکٹرانک شواہد کے فرانزک آڈٹ کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی رائے بھی شامل ہے۔

'واٹس ایپ' گفتگو میں استعمال ہونے والے موبائل فون نمبر کی مدد سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے مالکان کے نام حاصل کیے گئے۔

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی انکوائری نے بتایا کہ اے پی سی ایم اے کے ممبران میں 2014 سے 2020 تک نصب صلاحیت کی بنیاد پر پروڈکشن کوٹہ تقسیم سے متعلق تجارتی گٹھ جوڑ کا ثبوت موجود ہے۔

انکوائری رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ سیمنٹ مینوفیکچررز نے ڈسپیچ/سیل کوٹہ بھی برقرار رکھا اور آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے حتیٰ کہ مختلف سیمنٹ یونٹس میں نامزد عملہ بھی تعینات کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ پلانٹ اپنے مختص کوٹے سے زیادہ سیمنٹ فروخت نہیں کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیمنٹ کی قیمت میں اضافے کے بعد پی ایس ایکس میں مثبت رجحان

شمالی زون پنجاب میں آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر اور سیمنٹ کمپنیوں کے دفاتر کی تلاش کے بعد واٹس ایپ گروپس اور دیگر الیکٹرانک مواصلات سے دستیاب شواہد کی بنا پر مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ اراکین نے علاقے مختص کر رکھے تھے اور حتیٰ کہ قیمتوں تک کا تعین کیا گیا تھا۔

انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی جی خان سیمنٹ کے محکمہ مارکیٹنگ کے شعیب احمد کے اسمارٹ فون پر موجود ڈیٹا نے 15 نومبر 2018 کو تخلیق کردہ "آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن مارکیٹنگ آفیشلز" کے نام سے واٹس ایپ گروپ کی موجودگی پر روشنی ڈالی۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس گروپ کو شمالی زون میں قیمتوں کو طے اور تبادلہ خیال کے لیے ذریعے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے مختلف سیمنٹ پلانٹس کے لیے زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت جاری کردی اور اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ ایسوسی ایشن لاگت میں کمی کے اثرات کو صارفین تک منتقل کرنے کی منظور کے بارے میں اجتماعی فیصلہ کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان سے سیمنٹ کی خریداری روک دی

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مارکیٹ کی طلب کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ صارفین کو 40 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے کیونکہ مئی، جون اور اگست 2020 میں سیمنٹ کی قیمتوں میں 50 روپے تک اضافہ کردیا گیا تھا۔

عہدیدار نے کہا کہ جولائی 2019 میں اضافہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ حکومت نے ایکسل لوڈ کی حد مقرر کردی تھی اور اس سے مال کے کرائے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اس سال اضافے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ نہ صرف لاگت کی قیمت کم ہو رہی تھی بلکہ طلب میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس سال اپریل میں قیمتوں میں شروع ہونے والے اضافے نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان کو شعبہ سیمنٹ کے امور کی تحقیقات پر اکسایا۔

ملک میں 16 کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ 24 آپریشنل پلانٹس ہیں جنہوں نے مالی سال 20-2019 مالی سال میں 4 کروڑ 78 لاکھ ٹن سیمنٹ تیار کیا۔

رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ رواں سال کے وسط میں اس وقت سیمنٹ کے نرخوں میں اضافہ دیکھا گیا جب کوئلہ اور تیل کی عالمی قیمتیں کم ہورہی تھیں اور سود کی شرحیں بھی سنگل ہندسے تک گر گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: مٹی اور سیمنٹ سے چرند پرند بنانے کا ماہر شخص

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی انکوائری مئی سے اگست 2020 تک کی گئی تھی اور اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جولائی تا ستمبر 2020 سہ ماہی کے دوران سیمنٹ کمپنیوں کی فی شیئر آمدنی گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھی ہے۔

رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی کہ اس عرصے کے دوران بیسٹ وے سیمنٹ کی فی شیئر آمد میں 502 فیصد، لکی سیمنٹ کی فی حصص آمدن میں 133فیصد، ڈی جی خان سیمنٹ 75 فیصد، چیراٹ سیمنٹ نے 191 فیصد، فوجی سیمنٹ نے 138 فیصد، میپل لیف سیمنٹ میں 115 فیصد اور کوہاٹ سیمنٹ کی فی شیئر آمدن میں 473 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی انکوائری رپورٹ میں چھاپوں میں جمع شواہد سے حاصل کردہ واٹس ایپ امیج کی ایک نقل بھی دکھائی گئی اور اس کا موازنہ بعد کے عرصے میں پاکستان کے بیورو آف شماریات کے اعداد و شمار سے کیا گیا ہے۔

مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار نے بتایا کہ واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی جانے والی پیش گوئیاں بعد میں درست ثابت ہوئیں۔

مزید پڑھیں: ڈبلیو ڈبلیو ایف اور سیمنٹ ساز ادارہ کی گرین پاکستان مہم

انکوائری رپورٹ میں یہ بھی روشنی ڈالی گئی کہ سیمنٹ کے شعبے میں کوئی غالب کھلاڑی نہیں تھا اور سب سے بڑا کارخانہ دار بیسٹ وے سیمنٹ کے پاس صرف 18 فیصد حصص کا مارکیٹ شیئر ہے، اس کے بعد لکی سیمنٹ 15 فیصد اور ڈی جی ہے خان سیمنٹ 13 فیصد پر ہے۔

کمیشن نے آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اور پنجاب اور خیبر پختون میں موجود شمالی زون کی سیمنٹ کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں