جسٹس عیسیٰ نظرثانی کیس: بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2020
عدالت عظمیٰ کے 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی دراخواستوں پر سماعت کی، جہاں بینچ کی تشکیل کے معاملہ بھی زیر غور رہا۔

بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین شامل ہیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کیس کی درخواستوں پر 10 رکنی فل کورٹ نے سماعت کی تھی اور 19 جون کو 7 ججز کے اکثریتی فیصلے سے ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا جبکہ 3 ججز نے اس پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مزید پڑھیں: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم، حد میں رہنے کی تنبیہ

جس 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کیس کی سماعت کی تھی اس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کی تھی جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل تھے۔

تاہم جسٹس فیصل عرب کی ریٹائرمنٹ کے بعد نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے لیے 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا اور اس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ججز شامل نہیں ہیں جبکہ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ کیس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کیا جائے اور لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔

مذکورہ معاملے پر آج دوسری سماعت ہوئی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سرینا عیسیٰ اور مختلف بارز ایسوی ایشن کے وکیل پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ نظرثانی کیس کی پہلی سماعت 8 دسمبر کو ہوئی تھی جہاں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے چیف جسٹس سے متعلق بات کہنے پر بینچ کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں، جس پر سرینا عیسیٰ نے بعد میں معذرت کرلی تھی۔

آج دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ لطیف آفریدی ہسپتال میں داخل ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پرسوں بھی لطیف آفریدی کی طبیعت ناساز تھی، ہم چند باتیں پوچھنا چاہتے ہیں۔

اس دوران ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ لطیف آفریدی نے کہا ہے نظرثانی درخواستوں پر، کیس کا فیصلہ کرنے والا 10 رکنی فل کورٹ ہی سماعت کر سکتا ہے۔

ساتھ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ اگر عدالت حکم دے تو تحریری دلائل جمع کرا دیں گے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لطیف آفریدی اگلے ہفتے تک تحریری دلائل جمع کرا دیں۔

سماعت کے دوران سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے بینظر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ بھی دیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جسٹس دراب پٹیل کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی۔

اس پر منیر اے ملک نے جسٹس دراب پٹیل کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل نے عدالتی روایات اور وقار کے مطابق بینچ کی تشکیل کے بارے میں لکھا۔

ساتھ ہی انہوں نے منیر اے ملک سے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ پڑھ کر بینچ کی تشکیل سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔

عدالتی استفسار پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہی بینچ نظرثانی کیس سن سکتا ہے جس نے مرکزی کیس کا فیصلہ دیا ہو۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر فیصلہ دینے والے تمام ججز دستیاب نا ہوں تو کیا کرنا چاہیے؟ جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کی عدم دستیابی الگ مسئلہ ہے لیکن تعداد پوری ہونی چاہیے۔

ان کی بات پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم عدالتی روایات اور اصولوں کی بات کر رہے ہیں، جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ نظر ثانی کیس مرکزی بینچ کی جانب سے سنے جانے کی مثالیں موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

اس موقع پر عدالت میں موجود سینئر وکیل رشید اے رضوی اور حامد خان نے منیر اے ملک کے دلائل سے اتفاق کیا۔

علاوہ ازیں سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ بھی آئیں اور انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر میرا بیان ججز کو اگر گراں گزرا تو دوبارہ معذرت خواہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ عرض کرتی ہوں کہ چیف جسٹس کیس میں فریق ہیں۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے، بہتر ہوگا آپ اپنے معاون وکلا سے معاونت لیں، جس پر سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں مرکزی کیس میں فریق نہیں تھی، مجھے کیس کا ٹرانسکرپٹ فراہم کیا جائے۔

ان کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ٹرانسکرپٹ کے لیے اپلائی کر دیں، آپ کو فراہم کر دی جائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے میں بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ تمام فریقین کے دلائل سامنے آنے کے بعد مناسب وقت پر جاری کریں گے۔

اس کے بعد کیس کی سماعت کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

تاہم عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

10 نومبر کو سرینا عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے ساتھ درخواست جمع کروانے کے لیے پیش ہوئی تھی اور انہوں نے درخواست کی تھی کہ ان تمام ججز کو 10 رکنی فل کورٹ میں شامل کیا جائے جنہوں نے صدارتی ریفرنس کے خلاف ان کے شوہر (جسٹس عیسیٰ) کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا اور 19 جون کا مختصر حکم جاری کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ دسمبر کے اوائل میں سرینا عیسیٰ نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں انہوں نے پہلے والی نظرثانی درخواست کو منظور کرنے کیا استدعا سمیت زور دیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں 7 ججز کے 19 جون کے مختصر حکم سمیت 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔

علاوہ ازیں 5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں