Dawnnews Television Logo

سال 2020 میں عالمی منظر نامے پر رونما ہونے والے اہم واقعات

دنیا بھر میں سال کا بڑا حصہ کورونا وائرس اور اس سے منسلک واقعات اور تنازعات کی نذر رہا۔
اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2020 01:03pm

سال 2020 کی ابتدا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر نوع انسانی کو نئی چیزوں سے روشناس کروانے والے جس معاملے سے ہوئی تھی اِس کا اختتام بھی اسی کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔

یہاں ہم بات کررہے ہیں عالمی وبا کورونا وائرس کی جو جدید دنیا میں انسانوں کو متاثر کرنے والا وہ واحد معاملہ ہے جو سال کے اختتام پر بھی اسی طرح نہ صرف زبان زد عام ہے جیسے آغاز میں تھا بلکہ ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ انسانوں کے لیے اب بھی بڑی حد تک معمہ بنا ہوا ہے۔

حالانکہ دنیا بھر میں سال کا بڑا حصہ کورونا وائرس اور اس سے منسلک واقعات اور تنازعات کی نذر رہا تاہم کچھ اور اہم عالمی واقعات بھی رونما ہوئے جنہیں ہم یہاں قلمبند کررہے ہیں۔

ایرانی جنرل کی ہلاکت اور اس سے جُڑے معاملات

سال 2020 کے آغاز کے ساتھ تیسرے ہی روز سب سے بڑی خبر جو سامنے آئی وہ امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی تھی، انتہائی اہم فرد کی ہلاکت طویل عرصے سے امریکا کے ساتھ تنازع میں گھرے ایران کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔

اس واقعے کے 2 روز بعد ہی 5 جنوری کو ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کردیا تھا جس سے امریکا پہلے ہی علیحدہ ہوچکا تھا۔

قاسم سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کی بیرونِ ملک موجود شاخ کی سربراہی کرتے تھے—فائل فوٹو: اے پی
قاسم سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کی بیرونِ ملک موجود شاخ کی سربراہی کرتے تھے—فائل فوٹو: اے پی

ساتھ ہی ایرانی صدر حسن روحانی کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ 'ایران یورینیم کی افزودگی، ذخیرہ شدہ افزودہ یورینیم کی مقدار کے ساتھ اپنی جوہری سرگرمیوں میں تحقیق و ترقی میں کسی بھی قسم کی حد بندی نہیں رکھے گا۔

تاہم حیرت انگیز طور پر نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹ اُمیدوار جوبائیڈن کی کامیابی کے بعد ایران نے پیش کش کی کہ اگر امریکا تہران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کردے تو ایران 2015 کے جوہری معاہدے کی مکمل پاسداری کرے گا۔

اس سے قبل القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران ہی ایران نے اس کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل داغے تھے۔

ایران کی جانب سے اس حملے میں 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹرز اور فوجی ساز و سامان کو بھی ’سخت نقصان‘ پہنچا ہے۔

تاہم امریکی سینٹرل کمانڈ نے انکشاف کیا تھا کہ ایران کی جانب سے امریکی فوجی اڈوں پر کیے گئے میزائل حملوں میں 11 امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے اور کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

بعدازاں پینٹاگون نے ایک بیان میں بتایا کہ عراق میں قائم اڈے میں ہونے والے ایرانی میزائل حملوں کے بعد 34 فوجیوں میں دماغی چوٹ کی تشخیص ہوئی تھی۔

دوسری جانب ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق 2015 کے معاہدے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنے والے ممالک اب بھی اس بات پر مصر ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ کے تحت معاہدے میں امریکی واپسی کے امکان کو مثبت انداز میں حل کیا جائے اور جرمنی کے وزیر خارجہ نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ معاہدہ بچانے کے اس موقع کو ضائع نہ کرے جو اسے آخری ونڈو کہتے ہیں۔

نئی دہلی فسادات

بھارت کے مختلف حصوں میں متنازع شہریت قانون کی منظوری کے خلاف 2019 کے اواخر سے مظاہرے جاری تھے اور ان مظاہروں نے متعدد مرتبہ پر تشدد صورت اختیار کی اور اس دوران صورتحال خاصی کشیدہ بھی رہی۔

فسادات میں جس پوری مارکیٹ کو جلا کر راکھ کیا گیا وہاں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
فسادات میں جس پوری مارکیٹ کو جلا کر راکھ کیا گیا وہاں زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی تھیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم رواں برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے بھارتی دورے کے دوران 23 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جاری مظاہرے اچانک سنگین مذہبی فسادات کی صورت اختیار کر گئے۔

یہاں ہم آپ کو شہریت ترمیمی بل کے بارے میں بتاتے چلیں کہ سال 2019 میں 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا تھا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی جبکہ اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں تھے۔

چنانچہ بھارتی دارالحکومت میں ہوئے فسادات کے دوران کم از کم 53 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

جس کے بارے میں ایک انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ ان فسادات میں دہلی پولیس نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو ہدف بنایا تھا۔

ان فسادات میں زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا اور انتہا پسندوں نے مسجد کو بھی نذر آتش کردیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ان فسادات میں زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچا اور انتہا پسندوں نے مسجد کو بھی نذر آتش کردیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ فسادات میں دہلی پولیس انسانی حقوق کی سنگین خلاف پامالی کی مرتکب ہوئی، دہلی پولیس نے مظاہرین پر تشدد کیا اور انہیں گرفتار کیا جبکہ ہندو حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'ان فسادات میں مسلمانوں کا نقصان ہندوؤں کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تھا، جس میں مسلمانوں کی جائیدادوں اور کاروبار کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا'۔

امریکا-طالبان امن معاہدہ

سال 2001 میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری 2020 کو تاریخی امن معاہدے پر دستخط کیے گئے۔

زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے پر دستخط کیے — فوٹو: اے ایف پی
زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر نے معاہدے پر دستخط کیے — فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی باتیں افغان اور امریکی رہنماؤں کی جانب سے گزشتہ ایک دہائی سے کی جارہی تھیں جس کے لیے 2013 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان نے سیاسی دفتر قائم کیا تھا تاہم اس میں تیزی اس وقت آئی جب ٹرمپ انتظامیہ نے ستمبر 2019 میں افغانی نژاد زلمے خلیل زاد کو افغان امن عمل کے لیے خصوصی سفیر تعینات کیا تھا۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی، اس کے علاوہ لگ بھگ 50 ممالک کے نمائندوں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی جبکہ معاہدے پر دستخط کے پیِشِ نظر طالبان کا 31 رکنی وفد بھی قطر کے دارالحکومت میں موجود تھا۔

اس معاہدے کے تحت جنگ زدہ ملک افغانستان میں امن کا اگلا قدم بین الافغان مذاکرات تھے جس میں براہِ راست افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہونی اور اس کی راہ ہموار کرنے اور باہمی اعتماد سازی کے لیے قیدیوں کی تبادلے کی شرط عائد کی گئی تھی۔

امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کے تبادلے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے بدلے میں طالبان نے ایک ہزار افغان سیکیورٹی فورسز کے قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔

بین الافغان مذاکرات میں شریک طالبان کا وفد—تصویر: اے ایف پی
بین الافغان مذاکرات میں شریک طالبان کا وفد—تصویر: اے ایف پی

تاہم یہ اقدام تاخیر کا شکار ہوا اور اپریل سے اس پر باقاعدہ طور پر رہائی کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے بعد وقفے وقفے سے افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے قیدی رہا کیے جاتے رہے تاہم افغان حکام 400 خطرناک طالبان قیدیوں کو رہا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے جنہیں لویہ جرگے کی منظوری کے بعد بالآخر رہا کردیا گیا۔

جس کے بعد رواں برس ستمبر میں پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگیا۔

ہیری اور میگھن مارکل کی شاہی حیثیت سے دستبرداری

ہالی وڈ کی چمکتی دمکتی دنیا چھوڑ کر شاہی خاندان میں شامل ہونے والی میگھن مارکل اور ان کے شوہر برطانوی شہزادے پرنس چارلس اور لیڈی ڈیانا کے بیٹے شہزادہ ہیری نے اپنی شاہی حیثیت سے دستبرداری کا اعلان رواں سال کے آغاز میں کیا تھا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

دونوں نے سن 2020 کے آغاز میں ہی 9 جنوری کو اچانک شاہی ذمہ داریوں سے دستبرداری کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا تھا بعد ازاں ملکہ برطانیہ نے بھی دونوں کے فیصلے کی توثیق کردی تھی جس کے بعد 19 جنوری کو شاہی محل نے شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل کی شاہی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔

برطانوی شاہی محل سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل اب شاہی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ اب شاہی محل کا حصہ ہوں گے تاہم ساتھ ہی کہا گیا تھا کہ وہ شاہی خاندان کا حصہ ضرور رہیں گے۔

شاہی خاندان میں پیدا ہونے کے باعث ہیری کو شہزادہ ہی کہا جائے گا مگر ان کی کوئی شاہی حیثیت نہیں ہوگی یعنی اب وہ کسی بھی ملک میں شاہی خاندان کے آفیشل فرد کے طور پر نہیں پہچانے جائیں گے اور اسی طرح وہ اپنی سماجی و کاروباری مصروفیات کے دوران شاہی اعزازات کو بھی استعمال نہیں کر سکیں گے۔

چنانچہ 10 مارچ کو برطانوی شاہی جوڑا شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل باضابطہ طور پر شاہی حیثیت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

دونوں نے امریکا میں سکونت اختیار کرلی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
دونوں نے امریکا میں سکونت اختیار کرلی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

اس سے ایک روز قبل شہزادہ ہیری اور میگھن مارکل نے بطور شاہی خاندان کے فرد 9 مارچ کو شاہی محل میں ہونے والی ایک تقریبات میں شرکت کی جو شاہی حیثیت کے ساتھ ان کی آخری تقریب میں شرکت تھی۔

بعدازاں یہ جوڑا ابتدا میں کینیڈا منتقل ہوا تاہم اس کے بعد دونوں نے امریکا میں سکونت اختیار کرلی، وہ آزادانہ طور پر انٹرٹینمنٹ، فیشن، کھیل اور صحت کے شعبوں میں کام کرکے الگ پہچان بنانے سمیت خود مختار ہونے کے خواہاں ہیں۔

امریکی خام تیل کی قیمتوں میں منفی رجحان

2020 میں جہاں کئی انوکھے اور حریت انگیز عالمی واقعات نے تاریخ میں اپنی جگہ بنائی وہیں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کالا سونا کہلائے جانے والے امریکی خام تیل کی قیمتوں میں منفی رجحان دیکھا گیا۔

21 اپریل کو امریکی بینچ مارک ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) مئی کی ڈیلوری کے لیے منفی 37.63 ڈالر فی بیرل کی سطح پر بند ہوا، یعنی خام تیل کے فروخت کنندہ خریدار کو تیل کے ساتھ ساتھ 37.63 ڈالر فی بیرل دینے پر مجبور ہوگئے۔

امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ہونے کے بعد وال اسٹریٹ میں بھی شدید مندی دیکھی گئی — فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی خام تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار منفی ہونے کے بعد وال اسٹریٹ میں بھی شدید مندی دیکھی گئی — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکا کے علاوہ عالمی منڈی میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی اور پیداوار کے حوالے سے سعودی عرب اور روس کے درمیان تنازع نے تیل کی قیمتیں کم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔

جس کے بعد اپریل کے آغاز میں ریاض اور ماسکو نے تیل کی پیداوار ایک کروڑ بیرل فی یوم تک کم کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے اس تنازع کو ختم کیا تھا۔

تاہم تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کا سلسلہ کورونا وائرس کے باعث دنیا کے کئی ممالک میں لگائے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جاری رہا جس کے دوران نہ صرف فضائی بلکہ زمینی اور سمندری نقل و حمل کو انتہائی محدود کردیا گیا اور اس کے نتیجے میں تیل کی کھپت میں بھی بڑی کمی ہوئی تھی۔

دنیا کے کئی مقامات پر آتشزدگی

یوں تو سال 2019 سے ہی دنیا کے ایک خطے آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی آگ نے وسیع پیمانے پر جنگلی حیات کے لیے تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری رہا تاہم سال 2020 میں مزید ایسے آتشزدگی کے واقعات سامنے آئے جس نے بین الاقومی سطح پر توجہ حاصل کی۔

ایک رپورٹ کے مطابق یہ آگ آسٹریلیا بھر کے جنگلات اور خشک سالی سے متاثرہ زمین کے ایک لاکھ 15 ہزار اسکوائر کلومیٹرز سے زائد (44 ہزار اسکوائر میل) حصے پر لگی تھی جس کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہوگئے تھے۔

یہ جدید آسٹریلیائی تاریخ میں سب سے وسیع اور طویل بش فائر سیزن تھا—تصویر: اے ایف پی
یہ جدید آسٹریلیائی تاریخ میں سب سے وسیع اور طویل بش فائر سیزن تھا—تصویر: اے ایف پی

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اس غیرمعمولی آگ کے نتیجے میں 3 ارب جانور ہلاک ہوئے یا متاثرہ علاقہ چھوڑ گئے اور یہ 'جدید تاریخ میں جنگلی حیات کی بدترین تباہی میں سے ایک ہے'۔

25 اگست کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگارہ پر خوفناک دھماکے نے کئی میل تک عمارتوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں 190 سے زائد افراد ہلاک اور 6 ہزار زخمی ہوگئے تھے۔

ابتدائی طور پر خیال کیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر دھماکا دہشت گردی کی کارروائی ہے تاہم کچھ دن کی تحقیقات سے ثابت ہوا تھا کہ دھماکا گودام میں 6 سال سے پڑے 2 ہزار 700 ٹن نیوامیونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوا تھا۔

دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز پڑوسی قابض ملک اسرائیل کے سرحدی شہر تک سنی گئی تھی جبکہ اس سے ہونے والے نقصانات کے باعث 2 لاکھ 50 افراد بے گھر بھی ہوئے تھے۔

دھماکے کے بعد شہریوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کیے تھے، جس پر اس وقت کے وزیر اعظم حسن دیب نے 11 اگست کو کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا تھا۔

دھماکے کی زور دار آواز ارد گرد کے دیگر ممالک تک سنی گئی تھی—تصویر: رائٹرز
دھماکے کی زور دار آواز ارد گرد کے دیگر ممالک تک سنی گئی تھی—تصویر: رائٹرز

استعفیٰ دینے کے باوجود انہوں نے نگراں وزیر اعظم کے طور پر کام جاری رکھا اور دھماکے کی تفتیش کے لیے سینئر جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بھی قائم کیا جس نے تحقیقات کے بعد وزیر اعظم حسین دیب اور تین وزرا پر غلفت کا الزام لگایا، یعنی کہ وہ ہی دھماکے کے ذمہ داران ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عدالتی کمیشن کو ایسے شواہد ملے جن سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم حسن دیب کو گودام میں خطرناک مواد کی موجودگی سے آگاہ کیا گیا تھا اور انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کسی وقت بھی بڑا حادثہ ہوسکتا ہے۔

ماہ اگست میں صرف بیروت ہی نہیں بلکہ صرف 4 روز کے دوران مجموعی طور پر دنیا کے 7 ممالک میں آتشزدگی کے واقعات رونما ہوئے تھے۔

جن ممالک میں یہ واقعات پیش آئے ان میں چین، لبنان، فرانس، شمالی کوریا، عراق، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب شامل تھے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کا ٹرائل اور دہشت گرد کو سزا

سال 2019 میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں فائرنگ کرکے 51 نمازیوں کو قتل کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مجرم کو ایسی سزا سنائی گئی کہ جس میں مجرم کو کسی بھی صورت معافی کا حق نہیں دیا گیا۔

برینٹن ٹیرنٹ نے سماعت کے دوران اپنی نمائندگی خود کی—تصویر: رائٹرز
برینٹن ٹیرنٹ نے سماعت کے دوران اپنی نمائندگی خود کی—تصویر: رائٹرز

خیال رہے کہ گزشتہ سال 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک سفید فام دہشت گرد نے 2 مساجد پر اندھا دھند فائرنگ کرکے متعدد افراد کو شہید اور زخمی کردیا تھا، ساتھ ہی اس پوری کارروائی کو فیس بک لائیو کے ذریعے براہ راست نشر بھی کیا تھا۔

بریٹن ٹیرنٹ کو 51 افراد کے قتل، 40 کے اقدام قتل اور ایک دہشت گردی کے اقدام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

جسے سزا دینے کی کارروائی کا آغاز 24 اگست کو ہوا تھا اور 4 روز تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں اپنے پیاروں کی جدائی کے کرب سے گزرنے والے لواحقین نے جذباتی انداز میں اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

جج نے مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے اور سزا سناتے ہوئے کہا تھا کہ 'تمہارے جرائم اتنے گھناؤنے ہیں کہ اگر مرنے تک تم کو حراست میں رکھا جائے تو بھی سزا اور مذمت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاسکے گا'۔

کارروائی کے دوران استغاثہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ برینٹن ٹیرنٹ ان لوگوں میں خوف پھیلانا چاہتا تھا جن کو وہ خطرہ سمجھتا تھا اور اس نے احتیاط سے منصوبہ بنایا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ قتل عام کرے۔

لواحقین نے جذباتی انداز میں اپنے بیانات ریکارڈ کروائے—تصویر: رائٹرز
لواحقین نے جذباتی انداز میں اپنے بیانات ریکارڈ کروائے—تصویر: رائٹرز

برینٹن ٹیرنٹ، جس نے سماعت کے دوران اپنی نمائندگی خود کی لیکن کسی قسم کی سفارشات پیش نہیں کیں، جج نے برینٹن ٹیرنٹ کو سزا سنانے سے قبل پوچھا کہ اگر اسے کچھ کہنا ہے تو اس نے سر ہلادیا، جب اسے بتایا گیا کہ اسے اپنی بات کہنے کا پورا حق ہے تب بھی اس نے کچھ نہیں کہا۔

دوسری جانب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اسے کبھی سورج کی روشنی نہیں نصیب ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ '15 مارچ کا صدمہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوسکتا لیکن مجھے اُمید ہے کہ آج کا دن وہ آخری دن ہے جس میں ہم اس دہشت گرد کا نام سنیں گا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ پوری زندگی کے لیے مکمل خاموشی کا مستحق ہے'۔

کئی مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا

فلسطین کی حمایت کرنے والے افراد بالخصوص مسلمان رواں برس اگست میں اس وقت حیران رہ گئے جب بااثر عرب ریاست متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کے لیے امن معاہدہ کیا۔

نام نہاد 'ابراہام معاہدہ', جو اب اسرائیل اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان طویل عرصے سے خفیہ تعلقات کو سامنے لے آیا ہے جس کی بنیاد حالیہ سالوں میں خطے میں موجود مشترکہ حریف ایران کے حوالے سے تشویش پر رکھی گئی تھی۔

اس معاہدہ کے بارے میں اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا، انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ خطے کے دیگر ممالک بھی یو اے ای کے نقش قدم پر چلیں گے اور بعد ازاں ان کا یہ دعویٰ درست بھی ثابت ہوا۔

متحدہ عرب امارات کی پہلی مسافر پرواز 9 اکتوبر کو اسرائیل پہنچی—تصویر رائٹرز
متحدہ عرب امارات کی پہلی مسافر پرواز 9 اکتوبر کو اسرائیل پہنچی—تصویر رائٹرز

اس حوالے سے متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ جرات مندانہ اقدام ہے جس سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین طویل عرصے سے جاری تنازع کا حل ممکن ہوسکے گا۔

بعدازاں 29 اگست کو یو اے ای نے اپنے قانون میں شامل اسرائیل کے بائیکاٹ سے متعلق شق منسوخ کردی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تعلقات معمول پر آئے بلکہ عوام سطح پر بھی رابطے بڑھانے کے مختلف اقدامات کیے گئے۔

یو اے ای کے بعد بحرین وہ چوتھا مسلمان ملک تھا جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا اس سے قبل 1979 میں مصر اور 1994 میں اردن نے اسرائیل سے تعلقات بحال کیے تھے۔

اس کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے ہیبرو زبان میں دیئے گئے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ میں اسرائیل کے شہریوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس شام ہم ایک اور عرب ریاست سے امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات سے پہلے ہونے والے امن معاہدے کی روشنی میں تاریخی امن کا موجب بنے گا۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے 15 ستمبر کو باضابطہ طور پر اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے تاریخی معاہدے پر امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں دستخط کیے گئے۔

یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اس کے بعد ایک اور مسلمان ملک سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانے کا اعلان کیا۔

سوڈان کا فیصلہ علامتی طور پر اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ 1967 میں اس کے دارالحکومت خرطوم میں ہی عرب لیگ نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید برآں امریکا کی ثالثی میں مراکش اور اسرائیل نے تعلقات قائم کرنے کے لیے معاہدے پر اتفاق کیا، معاہدے کے تحت مراکش مکمل سفارتی تعلقات اور سرکاری سطح پر اسرائیل کے ساتھ رابطے قائم کرے گا اور فضائی حدود میں پروازوں کی اجازت کے ساتھ اسرائیل اور تمام اسرائیلیوں کے لیے پروازوں کی اجازت دینا بھی شامل ہوگا۔

بعدازاں اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والے ممالک کی فہرست میں جنوبی ایشیائی ملک بھوٹان کا بھی اضافہ ہوگیا۔

دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب بھارت میں اسرائیلی سفارتکار رون مَلکا کے گھر پر منعقد ہوئی۔

امریکی صدارتی انتخاب

سال 2020 جہاں کئی لوگوں کے لیے زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوا وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھی یہ صدمے کا باعث بنا کے اس میں امریکی اقتدار کا ہما پہلی ہی مدت کے بعد ان کے سر سے اڑ گیا۔

امریکا میں صدارتی انتخاب کے لیے ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور باضابطہ پولنگ کے لیے مقرر دن سے کئی روز پہلے سے اس کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، عالمی وبا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث امریکی شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

امریکی شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا—تصویر:اے ایف پی
امریکی شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا—تصویر:اے ایف پی

رپورٹس کے مطابق 10 کروڑ 20 لاکھ امریکی شہریوں نے ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی اپنا ووٹ دے دیا اس کے باوجود لاکھوں لوگ الیکشن کے روز اپنا حکمران چننے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔

ڈاک سے بڑی تعداد میں ووٹنگ کی وجہ سے گنتی میں دیر ہوئی اور انتخابات کے بعد تین روز تک نتائج کے حوالے سے جاری کشمکش اور غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہی اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی اور اپنی جیت کے مضحکہ خیز دعویٰ بھی کیا جاتا رہا۔

تاہم 7 نومبر کی شام ڈیموکریٹ اُمیدوار 78 سالہ جو بائیڈن 270 سے زائد الیکٹورل ووٹس حاصل کر کے فاتح قرار دے دیے گئے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حسب توقع صدارتی انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ڈیموکریٹس پر الیکشن چرانے کے الزامات لگائے اور نہ صرف انہوں نے یہ دعویٰ کیا بلکہ اس سلسلے میں عدالت سے بھی رجوع کیا۔

بعدازاں سپریم کورٹ میں ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پکسٹن کے ذریعے دائر کردہ قانونی چارہ جوئی میں مطالبہ کیا گیا کہ چار ریاستوں پینسلوینیا، جارجیا، مشی گن اور وسکونسن میں 10 ملین ووٹوں کو کالعدم قرار دیا جائے، ان چاروں ریاستوں میں صدر ٹرمپ ہار گئے تھے، 50 امریکی ریاستوں میں سے 17 اور 120 ری پبلکن قانون سازوں نے بھی اس اقدام کی حمایت کی۔

تاہم امریکی سپریم کورٹ نے 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے مقدمے کو مسترد کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس میں رہنے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آخری کوشش کو ناکام بنادیا۔

جو بائیڈن 20 جنوری کو 46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے—تصویر: اے پی
جو بائیڈن 20 جنوری کو 46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے—تصویر: اے پی

بالاآخر 14 دسمبر کو امریکی الیکٹورل کالج نے جو بائیڈن کو 2020 کے انتخابات میں فاتح قرار دے دیا جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلسل شکست تسلیم کرنے سے انکار کے باعث 40 دن تک جاری رہنے والے تناؤ کا خاتمہ ہوا۔

امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اب جو بائیڈن 20 جنوری کو ملک کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے جس کے بعد اقتدار کا عمل مکمل ہوجائے گا۔

عالمی وبا کورونا وائرس

اب جب ہم اس پورے سال میں عالمی صورتحال پر ایک طائرانہ نظر ڈال رہے ہیں ایسے میں سب سے نمایاں اور وسیع ترین مضمون کورونا وائرس ہی ہے جس کا ذکر کیے بغیر اس سال کو ضبط تحریر لانا ممکن ہی نہیں۔

یہ وائرس سال 2019 کے آخر میں چین میں نمودار ہوا اور دیکھتے ہیں دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا، مارچ تک اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک اٹلی تھا لیکن اس کے بعد اس وبا نے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکا کو ایسا جکڑا کہ وہ اب تک سنبھل نہیں پایا۔

اکثر ممالک سے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لوگوں کے رابطے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی—تصویر: اے ایف پی
اکثر ممالک سے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لوگوں کے رابطے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی—تصویر: اے ایف پی

وائرس کا آغاز کہاں سے ہوا اس کے بارے میں اب تک کا اندازہ یہی ہے کہ یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اس کا پھیلاؤ کا ذمہ دار پہلے چمگاڈروں اور پھر پینگولن نامی جانور کو قرار دیا جاتا رہا تاہم ابھی تک ٹھوس بنیاد پر اس بات کی تصدیق سامنے نہیں آسکی کہ کیا یہ جانوروں سے ہی انسانوں میں منتقل ہوا یا اس کے پیچھے کوئی اور راز ہے۔

اس حوالے سے چین اور امریکا کے درمیان لفظی جنگ بھی دیکھنے میں آئی اور امریکا نے واضح الفاظ میں الزام عائد کیا کہ وائرس چن کے شہر ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا اور ساتھ ہی چین میں بائیو ٹیکنالوجی کی حساس لیبارٹریز کا معائنہ کرنے کا بھی مطالبہ بھی سامنے آتا رہا۔

جہاں امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وبا قرار دیا، وہیں چین نے بھی امریکا پر الزام لگایا کہ دراصل امریکی فوج ہی ابتدائی طور پر کورونا کو ان کے شہر ووہان لے کر آئی تھی مگر ایسے الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا اور یہ سب صرف بیانات اور میڈیا کی خبروں کی زینت تک محدود رہے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے اور بھی کئی دیگر سازشی نظریات سامنے آئے—تصویر: زنوا
کورونا وائرس کے حوالے سے اور بھی کئی دیگر سازشی نظریات سامنے آئے—تصویر: زنوا

آغاز میں اکثر ممالک نے وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لوگوں کے رابطے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے لاک ڈاؤن لگایا گیا جس میں انتہائی ضروری سہولیات کے علاوہ ہر قسم کے کاروباری، سماجی، تفریحی، مذہبی مراکز بند کردیے گئے۔

تاہم وائرس کے پھیلاؤ میں سستی آنے اور معاشی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک بھی لاک ڈاؤن کا خاتمہ کرنے اور معیشت کے پہیے کو دوبارہ رواں کرنے پر مجبور ہوئے، وبا کا پھیلاؤ سست ضرور ہوا لیکن تھما نہیں۔

چنانچہ موسم سرما کے آغاز کے ساتھ وائرس نے دوسری لہر کی صورت میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا اور اب دوبارہ اکثر ممالک میں جزوی اور کہیں کہیں مکمل لاک ڈاؤن لگایا جاچکا ہے۔

تاہم حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دنیا میں کورونا ویکسین کی باقاعدہ منظوری دی جاچکی ہے اور کئی ممالک میں ویکسین لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن پوری دنیا کو ویکسین ملنے میں سال کے آخری عشرے تک یہ وبا 7 کروڑ 70 سے زائد افراد کو مصدقہ طور پر اپنا شکار بنا چکی تھی جس میں سے 4 کروڑ 34 لاکھ سے زائد صحتیاب ہونے میں کامیاب رہے جبکہ تقریباً 17 لاکھ اس جہانِ فانی سے کوچ کرچکے تھے۔

متعدد ممالک نے وائرس کی نئی قسم کے باعث برطانیہ پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں—تصویر: اے پی
متعدد ممالک نے وائرس کی نئی قسم کے باعث برطانیہ پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں—تصویر: اے پی

اس ضمن میں تازہ ترین پیش رفت یہ سامنے آئی کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم سامنے آئی ہے، یہ نئی قسم دسمبر کے وسط میں برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی اور 19 دسمبر کو عالمی ادارہ صحت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی یہ نئی قسم دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔

دوسری جانب دنیا کے متعدد ممالک نے برطانیہ کے سفر پر پابندی عائد کردی تاکہ انگلینڈ کے جنوبی حصے میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کو براعظم میں پھیلاؤ سے روکا جاسکے۔

علاوہ ازیں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے فوری طور پر لاکھوں افراد کے کرسمس کے منصوبوں کو ختم کرتے ہوئے سخت پابندیاں نافذ کردیں۔