ہائی بلڈ پریشر دماغی تنزلی کی رفتار تیز کرنے کا باعث قرار

18 دسمبر 2020
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں درمیانی عمر کے آغاز سے ہی یاداشت اور سوچنے کی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔

یہ بات برازیل میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہائی بلڈ پریشر کا سامنا چاہے بڑھاپے میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے نتیجے میں لوگوں کے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

برازیل کی Universidade Federal de Minas Gerais کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر عمر میں ہائی بلڈ پریشر سے بچنا ضروری ہے کیونکہ یہ ذہنی تنزلی کی جانب سے سفر تیز کردیتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی بہت مشکل ہے کہ ہائی بلڈ پریشر براہ راست ذہنی تنزلی کے سفر کو تیز کرتا ہے تاہم ایسا ہوتا ضرور ہے۔

اس تحقیق میں 7 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں اوسطاً 59 ال تھی۔

تحقیق کے آغاز پر ان افراد کی بلڈ پریشر کی تاریخ کو مدنظر رکھا گیا تھا اور پھر 2 مواقعوں 2008/10 اور 2012/14 کے دوران بلڈ پریشر کو چیک کرنے کے ساتھ یاداشت، زبان کی صلاحیت، توجہ مرکوز کرنے اور دیگر ذہنی افعال کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین نے دریافت کیا کہ درمیانی عمر اور بڑھاپے میں بلڈ پریشر رنڈنگ زیادہ ہونے سے سوچنے کی صلاحیت میں تنزلی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یاداشت کو ہائی بلڈ پریشر سے نقصان پہنچتا ہے، چاہے اس کی تشخیص 55 سال سے قبل ہو یا بعد میں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل ہائپرٹینشن میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل نومبر میں طبی جریدے یورپین ہارٹ جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوران خون کا انبساطی دباؤ (diastolic blood pressure) جو کہ دل کی دھڑکنوں کے درمیان خون کے دباؤ کو کہا جاتا ہے، میں 50 سال کی عمر سے قبل اضافے اور بعد کی زندگی میں دماغ کو نقصان پہنچنے میں مضبوط تعلق موجود ہے۔

اس تحقیق کے دوران 37 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 40 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان کی طبی تفصیلات بشمول دماغی ایم آر آئی اسکینز دستیاب تھے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار پریونٹیشن آف اسٹروک اینڈ ڈیمینشیا کی اس تحقیق میں ان رضاکاروں کے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا گیا۔

ان افراد کے ایم آر آی اسکینز میں دماغ کی چھوٹی شریانوں کو عمر اور بلڈ پریشر سے ہونے والے نقصان کو روشن حصوں میں دیکھا گیا، جسے white matter hyperintensities (ڈبلیو ایم ایچ) کہا جاتا ہے۔

ڈبلیو ایم ایچ کو فالج، ڈیمینشیا، جسمانی معذوری، ڈپریشن اور سوچنے کی اہلیت میں کمی کے خطرے سے جوڑا جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہر فرد میں عمر بڑھنے کے ساتھ یہ تبدیلیاں نہیں آتیں، مگر ہم نے تحقیق میں شامل 65 سال سے زائد عمر کے 50 فیصد سے زیادہ مریضوں میں انہیں دیکھا، جبکہ 80 سال سے زائد عمر کے لوگوں میں بھی، جو ہائی بلڈ پریشر کے شکار نہیں تھے، مگر زیادہ بلڈ پریشر سے اس کا خطرہ بڑھتا ہے۔

تحقیق کے دوران مارچ 2006 سے اکتوبر 2010 کے درمیان رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اور فالواپ ڈیٹا بشمول ایم آر آئی اسکینز اگست 2014 سے اکتوبر 2019 کے درمیان حاصل کیے گئے۔

محققین نے عمر، جنس، خطرے کے عناصر جیسے تمباکو نوشی اورر ذیابیطس کے ساتھ بلڈ پریشر کو مدنظر رکھ کر نتائج کو مرتب کیا۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ درمیانی عمر میں بلڈ پریشر بعد کی عمر میں دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ اس سے ڈبلیو ایم ایچ کا لوڈ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں