جنرل باجوہ برداشت کر رہے ہیں، کوئی اور ہوتا تو بڑا ردعمل آتا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2020
وزیراعظم عمران خان نے سما نیوز کو انٹرویو دیا—فوٹو: اسکرین گریب
وزیراعظم عمران خان نے سما نیوز کو انٹرویو دیا—فوٹو: اسکرین گریب

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ برداشت کر رہے ہیں کیونکہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن کوئی اور ہوتا تو بڑا ردعمل آتا۔

نجی ٹی وی چینل 'سما نیوز' کے پروگرام 'نیوز بیٹ' میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے بجلی کے حوالے سے اندازہ نہیں تھا کیونکہ بجلی لاگت 17 روپے کے قریب ہے اور ہم عوام کو 14 روپے پر فراہم کر رہے ہیں جس سے گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔

عوام کو امیدیں دلانے سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'لوگوں نے مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ جس دن آپ آئیں گے ایک سوئچ آن کریں گے اور ملک ٹھیک ہوجائے گا اور آتے ہی تبدیلی آگئی ہے'۔

مزید پڑھیں: حکومت 31 جنوری تک مستعفی نہ ہوئی تو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردیا جائیگا،فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ 'جب وعدے کرتے ہیں تو لوگوں کو 5 سال کا وقت دیتے ہیں تب آپ جج کرتے ہیں اور پھر اگلے انتخابات میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'تبدیلی یہ آئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ جو بڑے بڑے نام تھے جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا وہ جیلوں کے چکر لگا رہے ہیں'۔

'فوج کے اندر غصہ ہے'

ان کا کہنا تھا کہ 'جنرل باجوہ کی تعریف کرتا ہوں، میں پرانے آرمی چیفس کو بھی جانتا تھا، اس طرح کسی بھی آرمی چیف کو نشانہ بنانے سے فوج کے اندر ایک ردعمل آتا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'جنرل قمر جاوید باجوہ ایک سلجھے ہوئے آدمی ہیں، ان کے اندر ایک ٹھہراؤ ہے، اس لیے وہ برداشت کررہے ہیں، کوئی اور فوج میں ہوتا تو بڑا ردعمل آنا تھا، اس وقت اندر بہت غصہ ہے لیکن مجھے پتا ہے کہ وہ برداشت کر رہے ہیں کیونکہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ: انارکی سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن

اپوزیشن پر الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ جنرل فیض حمید اور ان کو نشانہ بنانے رہے اور فوج کو بلیک میل کررہے ہیں کہ کسی طرح جمہوری حکومت کو گرانے کے لیے دباؤ ڈالیں'۔

'اپوزیشن کے لانگ مارچ میں لوگ نہیں آئیں گے'

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے 31 جنوری تک استعفیٰ دینے کی ڈیڈلائن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'اگر وہ لانگ مارچ کریں تو پتہ چل جائے گا کہ استعفیٰ مجھے دینا ہے یا ان کو دینا پڑے گا اور رہی کہی کسر لانگ مارچ میں پوری ہوجائے گی'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میں چیلنج کرتا ہوں کہ یہ وہاں ہفتہ گزار گئے تو تب میں واقعی استعفے کا سوچنا شروع کردوں گا، وہ اس لیے ہفتہ نہیں گزاریں گے کیونکہ ان کے پاس لوگ چل کے نہیں آئیں گے، ہمارے پاس عوام تھے اس لیے ہم نے 126 دن گزار سکے'۔

انہوں نے کہا کہ 'عوام کو سمجھنا چاہیے کہ یہ خود کو ڈیموکریٹس کہہ رہے ہیں اور پاکستان کی فوج کو اپیل کر رہے ہیں کہ جمہوری حکومت کو ہٹادیں، اس پر آئین کا آرٹیکل 6 لگتا ہے'۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 'اگر آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف مجھے نہیں ہٹاتے ہیں تو فوج سے کہہ رہے ہیں مجھے ہٹا دیں، جس طرح کی باتیں جلسوں میں کر رہے ہیں یہ پریشان ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کی فوج حکومت کا ایک ادارہ ہے، وہ میرے نیچے ہیں، پاکستان کی فوج میرے اوپر نہیں بیٹھی بلکہ میرے نیچے ہے اور میں منتخب وزیراعظم ہوں اور یہ کہنا کہ میرے نیچے ایک ادارہ مجھے گرا دے تو دنیا کی کس جمہوریت میں یہ کہا گیا ہے'۔

'فوج اور ادارے ساتھ نہیں ہوتے تو میں اکیلے کیا کرسکتا تھا'

عمران نے کہا کہ ابھی تک جو چیز میری حکومت نے کرنا چاہا اور میرا منشور ہے اس پر پاکستان کی فوج اور پاکستان کے سارے ادارے میرے ساتھ کھڑے رہے۔

مزید پڑھیں: استعفے ہمارے ایٹم بم ہیں، اس کے استعمال کی حکمت عملی مل کر اپنائیں گے، بلاول

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے دو سال میں پاکستان کو جس مشکل سے نکالا ہے، اگر پاکستانی فوج اور ادارے میرے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو میں اکیلا کیا کر سکتا تھا'۔

وزیر اعظم نے نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ 'ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کی فوج نے اس کو کیسے بنایا، نواز شریف کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا کیا گیا، جنرل ضیا نے پی پی پی سے ڈر کر ان کو تیار کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جنرل ضیا الحق نے 1988 میں اپنے چھوٹے بیٹے انوار کے ذریعے پیغام بھیجا کہ میں پاکستان میں وزارت دینا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے پاس کوئی نہیں ہے'۔

نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ملک کے اندر کرپشن شروع نواز شریف نے کی، سارے جوہر ٹاؤن کے پلاٹس دے کر پارٹی بنائی، پیسے دے کر پارٹی بنائی اور اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی'۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'ہم چاہ رہے ہیں کہ انہیں ڈی پورٹ کروائیں، ڈی پورٹ تو ہم ابھی کروا سکتے ہیں، حوالگی ہم نے کروانی ہے لیکن اس کا عمل بہت لمبا ہے کتنی دیر لگے گی کچھ نہیں کہہ سکتا'۔

'پی ڈی ایم جو بھی کرے گی نقصان ان کا ہوگا'

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم جو کرنا چاہتی ہے اس کے لیے میں تیار ہوں، پیش گوئی کر رہا ہوں جو بھی کریں گے نقصان ان کا ہونا ہے، مینار پاکستان کے جلسے سے ان کو نقصان ہوا ہے لیکن جتنے بھی لوگ تھے یہ فلاپ شو تھا۔

استعفوں کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ کل نہیں آج استعفے دیں، ہمارا فائدہ کروائیں گے، ان کی پارٹی کے خلاف اکثریت استعفے دیں گے، اپنی پارٹی سے استعفے کا مطالبہ کریں گے تو ان کی اکثریت استعفے نہیں دے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ دھرنے میں ان کی پوری مدد کروں گا کیونکہ میں اس کا ماہر ہوں لیکن میری مدد کے باوجود یہ ایک ہفتہ نہیں گزار سکیں گے۔

مزید پڑھیں: لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ: مسلم لیگ (ن) کی قیادت و منتظمین کے خلاف مقدمہ

سینیٹ انتخابات پر انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن ہمارے اوپر ہے ہم ایک مہینہ پہلے بھی کر سکتے ہیں اور سپریم کورٹ میں آئین کی تشریح کے لیے جارہے ہیں کہ اوپن بیلٹ پر انتخابات کر سکتے ہیں یا نہیں۔

'وزیر کے اسرائیل جانے کی خبر جھوٹی ہے'

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہماری پالیسی نہیں ہے اور یہ بالکل جھوٹی خبر ہے، جب ہماری پالیسی نہیں تو پھر کوئی وزیر اسرائیل کیوں جائے گا، پاکستان کے جمہوری معاشرے میں کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ عوام فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 50 سال میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں 3 دفعہ زیر بحث آیا تو کیسے کشمیر ہمارے ہاتھ سے چلایا گیا، آج پاکستان کا امیج بھارت سے اوپر چلا گیا ہے، آج کشمیر 50 سال بعد پہلی مرتبہ اس قدر اوپر گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں