ممتاز صحافی علی اختر رضوی (مرحوم) کا شمار پاکستان کے صحافیوں کی اس قبیل سے تھا، جنہیں بلامبالغہ ’جہاں دیدہ‘ قرار دیا جا سکتا تھا لیکن جس قدر انہوں نے اس دشت کی سیاحی کی، اسی قدر وہ ’کوچہَ صحافت‘ میں گوشہ نشیں سے ہوگئے۔

کچھ شاید ہم پیشہ ساتھیوں کے ساتھ تجربات تھے، تو کچھ انہوں نے بھی ’پی پی آئی‘، ’کوہستان‘ اور ’مشرق‘ کی سنجیدہ صحافت سے اپنا رخ ’مقبول‘ یا ’شام کے اخبارات‘ جیسے ’ایونننگ اسپیشل‘ اور ’جانباز‘ وغیرہ کی طرف کرلیا، جس کے غیر سنجیدہ پن کو ناقدین ’زرد صحافت‘ میں شمار کرتے، لیکن علی اختر رضوی خود پر کسی بھی طرح کے ’زرد صحافت‘ کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے تھے۔

راقم الحروف کو ان کی وفات (2 اپریل 2020ء) سے قبل ان سے ایک تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا، جو غیر معمولی طوالت کے سبب دوسری نشست تک بڑھانا پڑا تاہم یہ ضروری بھی تھا، کیونکہ ان کے مشاہدات اور تجربات کا ایک سیل رواں تھا، جو بہتا ہی چلا جاتا تھا۔

اس میں جہاں ان کی جنم بھومی ہندوستان کی یادیں تھیں تو وہیں پاکستان میں بھی وہ کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد سے لے کر پشاور وغیرہ تک میں صحافتی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ان کی یادداشتوں کا ایک اہم باب ’ایم کیو ایم‘ بھی تھی، جسے تاریخی دلچسپی کے پیش نظر ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔

’ایم کیو ایم‘ جو پہلے ’مہاجر قومی موومنٹ‘ تھی، پھر ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کا روپ دھار گئی۔

ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے علی اختر رضوی نے بتایا کہ ایک بار ’ایم کیو ایم‘ کے تحت ’سستے بازار‘ کا انعقاد کیا گیا تھا، پھر اس کی دستاویزی فلم کی نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس میں انہیں عامر خان نے بہت اصرار کر کے بلایا۔ پہلے تو ایک گھنٹے تاخیر سے جانے کی پاداش میں انہیں استقبالیے پر ہی آدھا پون گھنٹے انتظار کرایا گیا، تنگ آکر وہ واپس جانے لگے تو پھر انہیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ کہتے ہیں کہ وہاں 3، 4 گھنٹے طویل ’دستاویزی فلم‘ میں ایک جیسے مناظر کی تکرار تھی کہ سامان لایا جا رہا ہے اور پھر دیا جا رہا ہے۔ آخر میں الطاف حسین نے سب سے تبصرہ لیا، تو وہاں موجود سارے صحافی تعریف کر رہے تھے، لیکن انہوں نے صاف گوئی سے کہہ دیا کہ ’ڈاکیومنٹری‘ تو 3 منٹ کی ہوتی ہے، اتنی طویل ’ڈاکیومینٹری‘ کون دیکھے گا؟

ایم کیو ایم کے صف اول کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی شادی کے حوالے سے یادیں تازہ کرتے ہوئے علی اختر رضوی نے بتایا کہ کشمیر روڈ، کراچی میں منعقدہ اس تقریب کے بعد جب سب رخصت ہونے کو تھے، تو صحافی اطیب صاحب کہنے لگے کہ ’پیر صاحب‘ (الطاف حسین) کہہ رہے ہیں کہ ‘صحافی ابھی نہیں جائیں، ہم ان کے ساتھ شہر کے دورے پر جائیں گے!’ میں نے کہا کہ ‘رات کے ایک بجے کون جاتا ہے، آپ نے ہمیں ... سمجھا ہوا ہے؟’ میں نے گاڑی لی اور ان کی حکم عدولی کرتے ہوئے گھر آگیا۔

ایک مرتبہ ’بورڈ آفس‘ کے عقب میں واقع پارک میں صحافیوں کی ایک تقریب کو یاد کرتے ہوئے علی اختر رضوی نے بتایا کہ اس میں الطاف حسین بہت تاخیر سے آئے اور آنے کے بعد میز پر سب سے فرداً فرداً مصافحہ کر رہے تھے، تو وہ اٹھ کر جانے لگے، الطاف حسین نے انہیں روکا اور ’مہاجر لباس‘ کی تعریف کرنے لگے کہ ’رضوی صاحب، اپ کیا نظر آرہے ہیں‘، انہوں نے کہا چھوڑیے صاحب، آپ کیا سجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا وقت ہوتا ہے؟ وہ بہتیرا بولے کہ ’بیٹھیے، کھانا تو کھائیے، آپ سے بات کرنی ہے‘، لیکن وہ نہیں رکے اور چلے آئے۔

اس حوالے سے ایک اور واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 1998ء سے پہلے کی بات ہے، ’نائن زیرو‘ کے ساتھ ہال میں ’دعوتِ افطار‘ تھی۔ ’میں وہاں سب سے پیچھے بیٹھا، تاکہ میرے منہ سے کوئی الٹی سیدھی بات نہ نکلے، کیونکہ میرے ذہن میں جو بات آئے، تو کہے بغیر نہیں رہتا۔ اب کسی کو اچھی لگے یا بُری!‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی الطاف حسین کا خطاب ویڈیو پر ہوتا تھا۔ انہیں میری موجودگی کا بتایا گیا ہوگا، تو وہ بولے کہ ’اختر رضوی صاحب! آپ تو ہمیں لفٹ ہی نہیں کراتے، سب نے سوالات پوچھے، آپ نے کچھ نہیں پوچھا‘۔ میں نے کہا ’کیا پوچھوں؟ آپ اپنی راہ سے بھٹک گئے ہیں! کہاں ہے آپ کا مہاجر صوبہ؟ کہاں ہے کوٹا سسٹم کا خاتمہ وغیرہ‘۔

وہ کہتے ہیں کہ میرے جواب پر اردگرد بیٹھے ہوئے صحافی خوفزدہ ہوکر میزوں کے نیچے چھپ گئے کہ کہیں کوئی گولی نہ آجائے۔ الطاف حسین بولے ’نہیں، نہیں ایسا ہے، ہم نے ایک کمیٹی بنائی ہے، آپ لندن تشریف لائیں اور بریف کریں، پھر بولے ‘واسع! رضوی صاحب کا بندوبست کرو!’

میں نے کہا معاف کجیے گا، ’بندوبست‘ لفظ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا، پھر وہ بولے میرا مطلب ہے کہ ٹکٹ وغیرہ کا بندوبست‘ لیکن اس کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ پھر انہوں نے مجھے اپنی کسی تقریب میں بلایا۔

’ایم کیو ایم‘ کو امن و امان کے مسائل کا ذمہ دار سمجھنے والے علی اختر رضوی کا خیال تھا کہ ’ایم کیو ایم‘ کبھی ٹھیک نہیں رہی، انہوں نے ’نشتر پارک‘ کے جلسے میں خود اسلحہ خریدنے کی ترغیب سنی۔

کہتے ہیں کہ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں میں پڑھے لکھوں کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا، زیادہ تر کباڑیے، قسائی اور نچلے طبقے کے لوگ تھے۔ شہر کے پڑھے لکھے لوگ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی کی طرف تھے۔

ہم نے کہا کہ اس زمانے میں تو بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ آگے تھے، تو بولے کہ وہ اوپر تنظیم کی سطح پر تھے۔ ’ایم کیو ایم‘ نے صرف ابتدائی ایک، یا 2 الیکشن اپنے دَم پر جیتے، اس کے بعد یہ ٹھپے لگاتے گئے! میں جاتا، تو میرا ووٹ پہلے سے پڑ چکا ہوتا تھا۔

’بارہ دری‘ میں عامر خان کی شادی پر گیا، تو ان سے کہہ دیا کہ ’میں اس ڈر سے آگیا کہ کہیں تم اغوا نہ کرالو۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ’وہ واقعی کروا لیتے تھے؟‘ تو بولے ’ہاں وہ تو ماسٹر مائنڈ تھا! آفاق احمد اور عامر خان، الطاف حسین کے حکم پر مارا ماری کرتے تھے۔ مفادات ٹکرانے کے نتیجے میں الگ ہوئے اور پھر ایجینسیاں انہیں واپس ملک میں لائیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Afaq Ahmed Siddiqui Dec 23, 2020 09:24am
asal haqeeqat bayan ki hai,
sn hamdard Dec 24, 2020 11:33am
chalo acha hua kam az ab koi such tau lekta hai altaf k helaf, warna pehly kis mae jurrat thi..