کینیڈین پولیس کی تحقیقات مکمل، کریمہ بلوچ کی موت کو ’غیرمجرمانہ‘ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2020
کریمہ بلوچ کینیڈا میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
کریمہ بلوچ کینیڈا میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

ٹورنٹو پولیس نے لاپتا ہونے کے بعد مردہ پائی گئیں بلوچ سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کی موت کو ’نان کریمنل‘ (غیر مجرمانہ) قرار دے دیا۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ جو کریمہ محراب کے نام سے بھی جانی جاتی تھی وہ اتوار کو ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن واٹر فرنٹ ایریا سے لاپتا ہوگئی تھیں۔

کریمہ بلوچ تقریباً 5 سال سے جلاوطنی میں کینیڈا کے شہر میں رہ رہی تھیں۔

پیر کو پولیس نے بتایا تھا کہ کریمہ بلوچ کی لاش ملی، بعد ازاں منگل کو ٹورنٹو پولیس سروس کا کہنا تھا کہ وہ کریمہ بلوچ کی موت کی تحقیقات کے حوالے سے ’کمیونٹی اور میڈیا کے بے انتہا دلچسپی‘ سے باخبر تھی۔

اپنی ٹوئٹ میں ٹورنٹو پولیس کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ہم نے تصدیق کی کہ پیر 21 دسمبر کو ایک 37 سالہ خاتون مردہ پائی گئیں‘۔

پولیس نے کہا کہ ’حالات کا جائزہ لیا گیا اور افسران نے یہ تعین کیا کہ یہ ایک غیر مجرمانہ موت ہے اور اس میں کسی سازشی معاملے کا شبہ نہیں‘، مزید یہ کہ خاتون کے اہل خانہ کو تحقیقات سے متعلق آگاہ کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: سیاسی کارکن کریمہ بلوچ کینیڈا میں مردہ پائی گئیں، پولیس

خیال رہے کہ غیر مصدقہ رپورٹس جس میں زیادہ تر بھارتی ذرائع ابلاغ سے تھیں، میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کریمہ بلوچ کو قتل کیا گیا تاہم گزشتہ روز ہی ٹورنٹو پولیس نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ حکام ان کی موت کو 'غیر مجرمانہ' کے طور پر تفتیش کر رہے ہیں اور انہیں ’کسی مشکوک کا شبہ نظر نہیں آرہا’۔

کریمہ بلوچ ایک معروف اسٹوڈنٹ آرگنائزر تھیں جنہوں نے بلوچستان کے حقوق کے لیے مہم چلائیں اور بعد ازاں دھمکیاں ملنے پر وہ کینیڈا منتقل ہوگئیں، ان کا نام 2016 کی بی بی سی کی 100 متاثر کن اور اثر رکھنے والی خواتین میں شامل کیا گیا تھا۔

ان کی ٹوئٹر پروفائل کے مطابق کریمہ بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن-آزاد اور بلوچ نیشنل فرنٹ (بی این ایف) بلوچستان کی سابق چیئرپرسن تھیں، وہ بلوچ حقوق اور لاپتا افراد کے لیے فعال مہم جو تھیں۔

کریمہ بلوچ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ناقد تھیں اور 2016 سے کینیڈا میں مقیم تھیں جہاں انہیں سیاسی پناہ مل گئی تھی، ان کے ایک قریبی دوست نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو بتایا کہ انہیں کینیڈا میں دھمکیاں مل رہی تھیں۔

علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا نے ایک ٹوئٹ کی کہ ان کی موت حیران کن تھی اور اس کی ’مؤثر تحقیقات‘ ہونی چاہئیں جبکہ انسانی حقوق کونسل بلوچستان نے کینیڈا کی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں