لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں کسی ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی تیاری کر رہا ہے۔ اگرچہ وزیرِ خارجہ نے پہلی مرتبہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے حوالے سے خبردار نہیں کیا لیکن متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران ایک پریس کانفرس میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا انداز واقعی تشویشناک تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے اتحادیوں سے اس قسم کے اقدام کی ’منظوری‘ کا منتظر ہے۔ یقیناً یہ بہت سنجیدہ صورتحال ہے۔ بھارت کے جنگی عزائم کو دیکھتے ہوئے اس کی جانب سے کسی فوجی مہم جوئی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی اصطلاح کے معنی کچھ اور ہیں۔

سرجیکل اسٹرائیک کی اصطلاح ایک ایسے حملے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس میں ایک ’جائز فوجی ہدف کو اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے کہ حملے کرنے والی فوج کا جانی نقصان نہ ہو یا پھر کم سے کم ہو‘۔

مزید پڑھیے: سفری پابندیاں عارضی نہیں، دنیا کو مستقبل میں کونسے بڑے خطرے لاحق ہیں؟

گزشتہ عرصے میں مودی حکومت نے اس اصطلاح کو پڑوسی ممالک میں فوجی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ 2016ء میں بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں اُڑی فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے پار ایک فوجی کارروائی کی ہے۔ پاکستان اس دعوے کی نفی کرچکا ہے۔

2019ء میں بھارتی فضائیہ کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی بھی بھارتیوں کے لیے ہزیمت کا باعث بنی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ بھارتی جنگی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔

ایک پاکستانی رہنما کی جانب سے بھارتی جارحیت کو ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کا نام دینا سمجھ سے باہر ہے۔ یقیناً وزیرِ خارجہ کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ کون سی اصطلاح استعمال کی جائے۔ سفارت کاری میں آپ کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلاشبہ یہ بہت سنگین صورتحال ہے جسے سنجیدگی سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بین الاقوامی برادری کو بھارت کے جارحانہ عزائم سے خبردار کرنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے ملک کے حکمرانوں کی جانب سے پریس کانفرنس کرنا یا ٹوئٹر پر پیغامات دینا کوئی درست عمل نہیں ہے کیونکہ اس سے معاملے کی سنجیدگی کم ہوجاتی ہے۔

ہمیں سفارتی محاذ پر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ اپنا مؤقف دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنی صلاحیت میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی ہر خبر پر یوں واویلا کرنے سے قومی قیادت کی خطرات سے نمٹنے کی اہلیت پر سوال اٹھتا ہے۔

لوگوں کو اس بات کی امید ہے کہ فروری میں بھارتی جارحیت کا کامیابی سے جواب دینے کا مطلب ہے کہ ہم اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن اس طرح پریس کانفرنس میں واویلا کرنے کو دنیا ہماری کمزوری کے طور پر بھی دیکھ سکتی ہے۔

مودی کے جارحانہ عزائم پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مقامی آبادی کا جانی اور مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے مبصر مشن کی گاڑی بھی بھارتی جارحیت کی زد میں آئی۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت کی جانب سے حملے کی منصوبہ بندی کی ٹھوس اور قابل اعتماد معلومات حاصل کرلی ہیں۔

بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جاری کشیدگی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی ہے لیکن اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے سرحد پار سے جنگجوؤں کے داخل ہونے کا جھوٹا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی چال ہے جسے بھارت ایک عرصے سے اپنی فوجی قوت میں اضافے کے جواز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے اضافے کو مودی کی جانب سے کسی ممکنہ فوجی کارروائی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں بھی بھارت کی سرپرستی میں ہونے والی کارروائیوں میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی برادری کو ایک ڈوزیئر دیا گیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ اس ڈوزیئر میں پاکستانی سرزمین پر بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشتگردوں کے حوالے سے ثبوت موجود تھے۔

ماضی میں بھی پاکستان میں ہونے والی دہشتگری کی کارروائیوں کا الزام بھارت پر عائد کیا جاتا تھا لیکن اس بار مخصوص دہشتگردانہ کارروائیوں، شدت پسند گروہوں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں حاصل شدہ آڈیو ریکارڈنگ اور دستاویزات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندر ان کارروائیوں میں مصروف ہے۔

پاکستان کے اندر بھارتی سرپرستی میں جاری دہشتگردانہ کارروائیاں دراصل بھارتی مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کی اس حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جسے آفینسیو ڈیفینس یا جارحانہ دفاع کہا جاتا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت جنگ کو دشمن ملک کے اندر لڑا جاتا ہے۔

لیکن بھارت کی جانب سے پاکستان میں کسی قسم کی فوجی مداخلت بھارتی وزیرِاعظم کے لیے ایک بہت بڑا رسک ہوگا۔ اس قسم کی مہم جوئی بے قابو ہوکر کسی بڑی جنگ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مودی کے عزائم کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ بھارت سفارتی سطح پر اس قسم کی مہم جوئی کا متحمل ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کہ اس قسم کی جارحیت پر دنیا توجہ نہیں دے گی۔

گزشتہ سال فروری میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی ناکام مہم جوئی دراصل جوہری حد [وہ حد جس کے بعد کوئی ملک جوہری ہتھیار استعمال کرسکتا ہے] کو جانچنے کی کوشش تھی۔ بھارت ایک ایسی پالیسی پر کاربند ہے جسے [کشیدگی میں] ’عمودی اور افقی‘ اضافہ کہا جاتا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد پاکستان کی جانب سے جوہری حد کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت کو جانچنا ہے۔ لیکن پاکستان کی جانب سے منہ توڑ جواب نے مودی کی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

مودی کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت میں اضافے کے پیچھے مقامی سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔ ان کے پاکستان مخالف بیانات نے ہی انہیں انتخابات جتوائے تھے اور یہ بیانات ان کے ہندو قوم پرستی کے نظریے میں اہمیت رکھتے ہیں۔

مودی کے طرزِ عمل کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس طرح عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بھارتی معیشت اس وقت مشکلات کا شکار ہے تو کیا اس صورتحال میں بھارت کسی فوجی مہم جوئی کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے؟

مزید پڑھیے: دبئی جانے والے پاکستانیوں کی دردناک کہانی

یہاں پاکستان کے حوالے سے یہ سوال موجود ہے کہ پاکستان کو بھارتی جنگی جنون کا جواب کس طرح دینا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی بھارتی مہم جوئی سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن بیرونی جارحیت کا مقابلہ صرف فوج کی مدد سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت پاکستان کی کمزوری اس کی معیشت اور ایک مستقل سیاسی انتشار ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ قومی سلامتی کے مختلف پہلوؤں پر ایک واضح مؤقف کا نہ ہونا دراصل ہماری قومی قیادت کی ناکامی ہے۔ یہاں وزیرِ اعظم کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس صورتحال میں اپنا قائدانہ کردار ادا کریں۔

بھارت کی طرف سے جارحیت کے خطرے کے پیش نظر پارلیمان کو اعتماد میں لینے کے بجائے ہماری سیاسی قیادت نے میڈیا اور ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو اس خطرے سے آگاہ کیا ہے۔ مضبوط خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری سفارتی کوششیں بھی رکاوٹوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خوف و ہراس پھیلانے کے بجائے اس سنگین دفاعی چیلنج سے نمٹنے کے لیے متحرک انداز اختیار کیا جائے۔


یہ مضمون 23 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں