ذہنی امراض کی درجنوں ادویات مارکیٹ سے غائب

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2020
ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ ان کے متبادل مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں—تصویر: شٹر اسٹاک
ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ ان کے متبادل مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں—تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی: کورونا وائرس کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور پاکستان بھر کے ہسپتالوں پر شدید دباؤ کے دوران ملک کے نظام صحت کو ایک اور بحران کا سامنا ہے اور نفسیاتی، دماغی عوارض کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی درجنوں مناسب قیمت کی ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں حکام اور صنعتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ متعدد ادویہ ساز کمپنیوں نے کاروباری طور استحکام کے فقدان یا ریگولیٹری مسائل کے باعث ان ادویات کی پیداوار روک دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی ضروری ادویات ہیں جنہیں کبھی مریض باقاعدگی اور عمومی طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اب یہ فوری طور پر دستیاب نہیں ہیں، اس میں سائیکو ایکٹو ڈرگز، اینٹی ڈیپریسنٹ، مووڈ اسٹیبلائزرز، اینٹی کولِنرجیکس وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مارکیٹس میں 60 سے زائد انتہائی اہم ادویات کی قلت

ایک سینئر ماہر صحت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'مناسب قیمت اور عام آدمی کی پہنچ میں ہونے کی وجہ سے یہ ادویات عمومی طور پر ذہنی صحت کے مسائل اور دماغی امراض کے شکار مریضوں کو تجویز کی جاتی ہیں'۔

مارکیٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض کے شکار مریضوں کو درکار بنیادی ادویات کی عدم موجودگی کی وجہ متعلقہ کمپنیوں کی جانب سے ان کی عدم پیداوار ہے جس کی وجہ سے فراہمی کا سلسلہ برقرار رکھنا مشکل ہے کیوں کہ یہ ادویات معاشی طور پر قابل عمل نہیں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ ان کے متبادل مہنگی دوائیں خریدنے پر مجبور ہیں۔

ایک مقامی سپلائر کا کہنا تھا کہ 'جو افراد شیزو فینیا، بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن جیسے ذہنی مسائل کا سامنا کرتے ہیں انہیں یہ ادویات سالوں تک استعمال کرنی ہوتی ہیں اس لیے ان ادویات کی لاگت کم اور ان کا سستا ہونا انتہائی اہم ہے'۔

مزید پڑھیں: حکومت نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی

انہوں نے مزید کہا کہ اس بحران کے پسِ پردہ کاروباری وجوہات ہیں مثال کے طور پر فینوباربیٹل نامی گولیاں پاکستان میں 20 روپے کی ایک ہزار ملتی ہیں لیکن اب یہ دوا دستیاب نہیں، ادویہ ساز کمپنیاں یہ دلیل دیتی ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی اور پیداوار کی لاگت میں اضافے کی وجہ سے ان کے لیے اتنی کم قیمت میں دوا تیار کرنا ممکن نہیں ہے۔

علاوہ ازیں مذکورہ معاملہ پاکستان سائکیٹرک سوسائٹی (پی پی ایس) نے اٹھایا اور اس سے پہلے کہ بحران سنگین ہوجائے مداخلت کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان سے رابطہ کیا۔

مشیر صحت کو لکھے گئے خط میں پی پی ایس نے 15 مختلف گولیوں، 4 انجیکشنز اور کیپسولز کا ذکر کیا جو پہلے ملک بھر میں باآسانی اور سستی مل جاتی تھیں لیکن اب دستیاب نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کی مارکیٹوں میں دل کے مریضوں کیلئے انتہائی اہم دوا کی قلت

ذرائع کا کہنا تھا کہ بہت سی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود بڑی تعداد میں دواؤں کی قیمت پر نظر ثانی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مینوفیکچررز کے لیے غیر پرکشش مارجن رہ گیا ہے۔

اس ضمن میں کثیرالملکی ادویہ ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم، فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹی حق کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر ٹئگرال مینوفیکچررز کے لیے موجودہ قیمت پر تیار کرنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی نے ڈریپ سے اس دوا کو تیار کرنے کی درخواست کر رکھی ہے جو اب تک زیر التوا ہے اس لیے یہ صرف کاروباری معاملہ نہیں بلکہ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن میں بحران سے نمٹنے کے لیے ریگولیٹری فورمز میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں