'نادرا سے ساڑھے 11 کروڑ پاکستانی موبائل صارفین کا ڈیٹا لیک نہیں ہوا'

اپ ڈیٹ 27 دسمبر 2020
وزارت داخلہ کے مطابق ڈیٹا لیک ہونے کے دعوے پر انکوائری بورڈ تشکیل دیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت داخلہ کے مطابق ڈیٹا لیک ہونے کے دعوے پر انکوائری بورڈ تشکیل دیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: وزارت داخلہ نے سندھ ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستانی موبائل صارفین سے متعلق کسی قسم کا کوئی ڈیٹا، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے لیک نہیں ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں ساڑھے 11 کروڑ پاکستانی موبائل صارفین کا ڈیٹا مبینہ طور پر ڈارک نیٹ پر فروخت کرنے کی رپورٹس کی تحقیقات کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

جب یہ معاملہ عدالت میں سماعت کے لیے آیا تو ایک اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک رپورٹ جمع کروائی۔

یہ بھی پڑھیں: نادرا نے شہریوں کے ڈیٹا شیئر کرنے کی رپورٹس کو مسترد کردیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈیٹا لیک ہونے کے دعوے پر انکوائری بورڈ تشکیل دیا گیا اور پاکستان میں سائبر سیکیورٹی کی اسپیشلائزڈ کمپنی ایم ایس ریوٹرز نے تصدیق کی کہ پاکستانی موبائل فون سے متعلق فراہم کردہ ڈیٹا نادرا کا نہیں جبکہ مختلف ٹیسٹس اور فارنزک تجزیے بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نادرا کی جانب سے کوئی ڈیٹا لیک نہیں ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کا ڈیٹا بہت سے سرکاری محکمے اور کمپنیاں سنگل آئیڈینٹیٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور لیک ہونے والے ڈیٹا کے حاصل کردہ نمونے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ ڈیٹا نادرا سے تعلق نہیں رکھتا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی متعلقہ تفصیلات بہتر طور پر عدالت میں جمع کرواسکتی جو اس درخواست میں ایک فریق ہے۔

مزید پڑھیں: نادرا کے ڈیٹا میں ہیرا پھیری کی رپورٹس۔ خطرے کی گھنٹی

گزشتہ سماعت میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں بینچ نے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو موبائل صارفین کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر پی ٹی اے کے سائبر سیکیورٹی ریسرچر نے بیان جمع کروانے لیے مہلت مانگی تھی اور کہا تھا کہ پی ٹی اے پہلے ہی اس کی تفتیش کررہی ہے اور اس حوالے سے رپورٹ جلد مکمل ہوجائے گی۔

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ طارق منصور نے بینچ کو آگاہ کیا کہ سیٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) ایکٹ 2020 اور ڈیٹا پروٹیکشن بل اب تک زیر غور ہے اور اب تک کوئی مناسب قانون سازی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ووٹرز کی خفیہ معلومات افشا نہیں ہوئیں، الیکشن کمیشن

درخواست گزار نے کہا تھا کہ ریوٹرز کی ذاتی ڈیٹا کی خلاف ورزی رپورٹس ہیں کہ ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والوں کے مبینہ استعمال کیے جانے والے ساڑھے 11 کروڑ پاکستانیوں کا ڈیٹا ڈارک نیٹ پر دیکھا اور کچھ سائبر کرمنلز اس ڈیٹا کے لیے 300 بٹ کوئن کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید دلیل دی کہ ڈیٹا جس میں شہریوں کے مکمل نام، مکمل پتا اور موبائل صارفین کے قومی شناختی کارڈز نمبر آن لائن فروخت کے لیے پیش کیے گئے جو بہت خطرناک ہے اور شہریوں کی رازداری متاثر کررہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں