چین نے امریکا کے تبت سے متعلق قانون کو مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2020
ترجمان وزارت خارجہ نے امریکی بیانات کو حقائق  کے منافی قرار دیا — فائل/فوٹو: اے ایف پی
ترجمان وزارت خارجہ نے امریکی بیانات کو حقائق کے منافی قرار دیا — فائل/فوٹو: اے ایف پی

چین کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تبت پر دستخط شدہ قانون کو یکسر مسترد کردیا اور ہانگ کانگ سے متعلق معاملات میں مداخلت سے باز رہنے پر زور دیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز تبت سے متعلق جس قانون پر دستخط کیے ہیں اس کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

ترجمان وزارت خارجہ ژاؤ لیجیان نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ تبت سے متعلق امور ہمارے داخلی معاملات ہیں۔

مزید پڑھیں: چین کا امریکی اقدام کے جواب میں 4 میڈیا اداروں کو تفصیلات جمع کرنے کا حکم

اس سے قبل امریکا کے صدر نے تبت سے متعلق پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے تبتن پالیسی اینڈ سپورٹ ایکٹ 2020 پر دستخط کیے تھے۔

اس قانون میں کہا گیا ہے کہ لہاسا میں امریکی قونصل خانہ قائم کیا جائے گا اور تبت کے شہریوں کو دلائی لاما کا جانشین منتخب کرنے کا مکمل حق دیا جائے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ کے دوران امریکا پر ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا، ہانگ کانگ کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

چین کی جانب سے یہ بیان چین میں قائم امریکی سفارت خانے کے اس مطالبے کے بعد سامنے آیا کہ شینژن میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے قید 12 افراد کو رہا کیا جائے۔

امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے بیان میں کہا تھا کہ ان افراد کا 'نام نہاد جرم، ظلم سے بغاوت اور چین کا اپنے شہریوں کو کہیں بھی آزادانہ طور پر کام کرنے سے روکنے کا عزم ہے'۔

چینی ترجمان نے کہا کہ 'امریکا کا بیان حقائق کے منافی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ چین اس بیان سے مکمل اختلاف کرتا ہے اور امریکا پر زور دیتا ہے کہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہانگ کانگ کے میڈیا ٹائیکون جمی لائی بیٹوں سمیت گرفتار

خیال رہے کہ 1991 میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کیا تھا اور چین یہاں 'ایک ملک، دو نظام' فریم ورک کے تحت حکمرانی کر رہا ہے اور ہانگ کانگ کو نیم خود مختاری حاصل ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج و مظاہرے کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو واضح کردیا تھا۔

ہانگ کانگ میں اس احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔

شدید احتجاج کے بعد ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے چین بھیجنے کی اجازت دینے والے قانون کو واپس لے لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس میں حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی پرتشدد کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے شامل تھے۔

چین نے رواں برس ہانگ کانگ کے حوالے نیشنل سیکیورٹی قانونی کی منظوری دی تھی جو نافذ ہوچکا ہے، جس کے بعد امریکا اور برطانیہ کی جانب سے سخت ردعمل آیا تھا لیکن چین نے اس کو مسترد کرتے ہوئے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں