ضمانت منسوخ کرنے کیلئے مضبوط جواز ضروری ہے، سپریم کورٹ

29 دسمبر 2020
عدالت عظمیٰ نے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کی صورت میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ نے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کی صورت میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے ضمانت دینے کو آئین کے تحت ایک قیمتی حق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس رعایت کو واپس لینے کا مطلب کسی ملزم کی آزادی کو محدود کرنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید مظاہر علی نقوی نے ایک حالیہ فیصلے میں کہا کہ 'ایک مرتبہ جب عدالت ضمانت دے دیتی ہے تو ملزم کو دی گئی اس رعایت کو ختم کرنے کے لیے بہت مضبوط اور غیر معمولی بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے'۔

جسٹس مظاہر علی نقوی اس 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے جس میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل بھی شامل تھے، بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے یکم اکتوبر کو دیے گئے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: ضمانت قبل از گرفتاری دینے میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ

درخواست گزار نے مجرمانہ انصاف کے محفوظ انتظامی مفاد میں ضمانت بعد از گرفتاری حاصل کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار کی استدعا کی تھی۔

درخواست گزار ضلع لکی مروت کے تاجوری تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔

مذکورہ معاملے میں تمام ملزمان جرم کے بعد جائے وقوع سے فرار ہوگئے تھے جس کا پس پردہ محرک اراضی کا تنازع تھا۔

درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی تھی جسے 27 جولائی کو منظور کرلیا گیا تھا لیکن شکایت کنندہ سے اس حکم کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جس نے یکم اکتوبر کو ضمانت منسوخ کردی تھی۔

مزید پڑھیں: میر شکیل الرحمٰن کی 8 ماہ بعد ضمانت منظور

جسٹس مظاہر نقوی کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو ایک جرم میں حملہ آور کے طور پر نامزد کیا گیا تھا اور اس نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر کے اپنی بے گناہی کی استدعا کی تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تمام ملزمان کے خلاف الزامات عمومی نوعیت کے ہیں اور کسی حملہ آور سے کوئی نقصان پہنچنے کا ذکر نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو ضمانت دیتے ہوئے ان پہلوؤں کو مدِ نظر رکھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 'ایک مرتبہ جب ضمانت دے دی جاتی ہے تو اس کی منسوخی کے لیے مضبوط وجہ کی ضرورت ہوتی ہے، ضمانت بعد از گرفتاری پر موجود ملزم کو آزادی سے محروم کرنا ایک سنگین اقدام ہے اور ایسے ملزم کی ضمانت منسوخ کرنے کی کوئی قانونی مجبوری نہیں جو مبینہ طور پر سزائے موت، عمر قید یا 10 سال جیل کی سزا والے جرم کا مرتکب ہو‘۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کی نیب عدالتوں کو کارروائی تیز کرنے کی ہدایت

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ عام طور پر اعلیٰ عدالتیں ضمانت کی رعایت میں توسیع کے حکم میں مداخلت سے گریز کرتی ہیں۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے اپیل منظور کرتے ہوئے ملزم کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی صورت میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں