2021ء مسلم دنیا کے لیے فیصلہ کن سال

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2020
معاہدات ابراہیمی کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ جسے اسرائیلی تسلط سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم عنصر ہے۔
معاہدات ابراہیمی کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ جسے اسرائیلی تسلط سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم عنصر ہے۔

2020ء میں کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا ہے۔ سماجی میل جول ختم ہوگیا، سفری پابندیاں لگیں اور معاشرہ یکسر تبدیل ہو کر رہ گیا۔

وائرس کے خوف نے جہاں انسانوں کو ایک دوسرے سے دُوری اختیار کرنے پر مجبور کیا وہیں اس سال کچھ سخت حریف یوں قریب آئے کہ لگتا تھا کہ بچھڑے ہوئے ایک عرصے بعد ملے ہوں۔ یہ قربت ’معاہدات ابراہیمی‘ کے نام پر ہوئی اور انجیل کے تصورات کو ان معاہدوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ معاہدات ابراہیمی نے مسلم دنیا میں ایسی ہلچل پیدا کی ہے کہ اس کے اثرات کئی عشروں یا شاید صدیوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔

اسرائیل سے تعلقات کے قیام اور تجدید تعلقات کے لیے 5 مسلم، عرب ممالک نے براستہ وائٹ ہاؤس معاہدات ابراہیمی کو اپنایا۔ ان معاہدات ابراہیمی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اسرائیل نواز ٹیم نے جان توڑ محنت کی۔

صدر ٹرمپ ان معاہدات ابراہیمی کی بنیاد پر دوسری مدت صدارت کا خواب سجائے بیٹھے تھے لیکن یہ خواب چکنا چور ہوگیا۔ امریکی انتخابات میں فراڈ کے الزامات کی گونج اس قدر شدید تھی کہ لگتا تھا تیسری دنیا کے کسی ملک کے الیکشن میں دھاندلی ہوگئی ہے اور دنیا میں جمہوریت کا چیمپئن امریکا بہادر ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردے گا اور اس ملک کا معاشی و سماجی بائیکاٹ تب تک جاری رہے گا جب تک وہ ملک ان انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دے دیتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ یہ امریکا کا اندرونی معاملہ تھا۔

معاہدات ابراہیمی واقعی ایسی بڑی پیشرفت تھی جس پر امریکی صدر کا دوسری مدت کے لیے منتخب ہونا لازم تھا لیکن بُرا ہو کورونا وائرس کا جس کی وجہ سے امریکی معیشت سخت بحران کا شکار ہوئی۔ کروڑوں امریکی بیروزگاری کے طوفان کی زد میں آئے، معاشی مشکلات نے سماجی تضادات کو بھی آشکار کیا اور صدر ٹرمپ کا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

20 جنوری کو امریکا میں انتقالِ اقتدار ہونا ہے لیکن ٹرمپ اب بھی دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس میں انتخابی نتائج کو الٹانے کے منصوبے اب بھی زیرِ بحث ہیں۔ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جنرل مائیکل فلن سمیت کئی سخت گیر ری پبلکن مارشل لا کے نفاذ اور ووٹنگ مشینوں کو قبضے میں لے کرسوئنگ ریاستوں میں دوبارہ انتخابات کے مشورے دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مشیران نے انتخابی نتائج الٹانے کے جتنے بھی نسخے تجویز کیے ہیں وہ قابلِ عمل نظر نہیں آتے اور انتقالِ اقتدار یقینی ہے۔

صدر ٹرمپ 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوجائیں گے لیکن جاتے ہوئے وہ نئی بائیڈن انتظامیہ اور دنیا کے لیے کئی مسائل کھڑے کرکے جا رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ کو دوسری مدت مل جاتی تو شاید وہ ان مسائل کو کوئی رخ دے جاتے لیکن اب معاہدات ابراہیمی، افغان امن عمل اور عراق اور شام سے امریکی انخلا کے معاملات پر بائیڈن انتظامیہ کی رائے مختلف ہوسکتی ہے جو معاملات کو مزید الجھانے کا سبب بنے گی۔

گزشتہ 100 سال میں مشرقِ وسطیٰ نے ناقابلِ یقین تبدیلیاں دیکھیں جن میں سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ، یورپ کا تسلط، اسرائیل کا قیام اور جنگیں، عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے تجربات، امریکی ثالثی میں اسرائیل، فلسطین امن کا خواب اور اس کے نتیجے میں ملنے والے دھوکے، انقلابِ ایران، عراق پر حملے کے بعد خطے میں امریکا کا زوال، عرب بہار، داعش کا قیام اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بربادی اور ایران کے ساتھ مغرب کے اتحادی عربوں کی صلح کی ناکام کوششیں شامل ہیں۔

گزشتہ 100 سال میں مسلم دنیا نے ناقابلِ یقین تبدیلیاں دیکھی ہیں
گزشتہ 100 سال میں مسلم دنیا نے ناقابلِ یقین تبدیلیاں دیکھی ہیں

نئی صدی میں معاہدات ابراہیمی کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ جسے اسرائیلی تسلط سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، سب سے اہم عنصر ہے۔ اس کے علاوہ 5 عرب ممالک شام، لیبیا، عراق، لبنان اور یمن خانہ جنگی کا شکار ہیں اور سیاسی طور پر مفلوج یا ناکام ریاست بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں، جبکہ ترکی کی پالیسیوں کو خلافتِ عثمانیہ کے احیا کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بحیرہ روم میں ترکی کی پالیسیوں کو نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود یورپی اتحاد کے خلاف نئی طاقت شمار کیا جا رہا ہے جو نیٹو کے اصل حریف روس کے قریب ہے اور مشرق وسطیٰ میں روس کی پیش قدمی بھی جاری ہے۔ دوسری جانب چین خطے میں بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے قدم جما رہا ہے۔

ترکی جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ شام، عراق اور لیبیا میں ترکی کی مداخلت اور نیگورنو-کاراباخ میں ترکی کی مدد سے آذربائیجان کی فتح دراصل ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مظاہر ہیں۔ عربوں کے سماجی بائیکاٹ کی زد میں آئے قطر کے ساتھ ترکی کی گرم جوشی اسے مشرق وسطیٰ کا اہم کھلاڑی بنا چکی ہے، جبکہ نیٹو کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ میں ترکی روس کے ساتھ شراکت کو بڑھا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے 3 بڑے ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔

معاشی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ایران اپنی تنہائی کے باوجود بغداد اور دمشق کے راستے بیروت تک اثر و رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔ مصر، اردن اور خلیج تعاون تنظیم کے چند رکن ممالک اسرائیل کے ساتھ مل کر صف بندی کر رہے ہیں اور اسرائیل کی فوجی، سیاسی اور انٹیلی جنس صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ معاہدات ابراہیمی کو مزید فروغ دینے پر کام جاری ہے، مزید 2 مسلم مملک، جن میں ایک عرب اور ایک ایشیائی مسلم طاقت شامل ہے، جلد اس دائرے میں داخل ہوسکتے ہیں جس کے بعد سعودی عرب بھی معاہدہ ابراہیمی قبول کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔

معاہدات ابراہیمی کے بعد اب عرب-اسرائیل اتحاد بنتا نظر آرہا ہے
معاہدات ابراہیمی کے بعد اب عرب-اسرائیل اتحاد بنتا نظر آرہا ہے

معاہدات ابراہیمی کی صورت میں اسرائیل عرب اتحاد تشکیل پا رہا ہے جس کی بنیاد سلامتی کو درپیش خطرات پر ہے۔ اسرائیل اور عربوں کے لیے 2 ہی خطرات ہیں، پہلا ایران اور اس کے اتحادی اور دوسرا سیاسی اسلام جس کی ایک شکل اخوان المسلمون ہے۔ ترکی اور قطر کے ساتھ عربوں کا بنیادی جھگڑا ہی اخوان المسلمون کی حمایت اور مدد پر ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام اب خطرہ شمار نہیں ہورہا بلکہ میزائل اور ڈرونز سمیت ایران اور اس کے اتحادیوں کی روایتی فوجی صلاحیتیں خطرہ شمار کی جا رہی ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں اب 3 بڑے جیو پولٹیکل اتحاد ابھر کر سامنے آئے ہیں، ایک ترکی اور اس کے اتحادی، دوسرا ایران اور اس کے اتحادی اور تیسرا عرب-اسرائیل اتحاد۔

ترکی اور اس کے اتحادی عرب دنیا میں اخوان المسلمون کو بادشاہتوں اور آمریتوں کے لیے دردِ سر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ عرب بادشاہتوں نے اخوان المسلمون کو کالعدم دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ نام نہاد عرب جمہوریتوں میں بھی اخوان المسلمون اشرافیہ کے لیے خطرہ ہے۔ عرب دنیا کی بادشاہتیں اور نام نہاد آمریتیں سابق صدر مرسی کی طرح کہیں بھی اخوان کے دوبارہ نمودار ہونے اور اس کے باقی ملکوں میں اثرات کو کسی بھی صورت روکنا چاہتے ہیں۔ عرب بہار کے 10 سال مکمل ہونے کے بعد بھی دوبارہ کسی سیاسی تحریک کا خطرہ ابھی تک صرف دبایا ہی جاسکا ہے، ختم نہیں ہوا ہے۔

عرب ریاستیں محمد مرسی کی طرح کہیں اور اخوان کو نمودار ہونے سے روکنا چاہتی ہیں
عرب ریاستیں محمد مرسی کی طرح کہیں اور اخوان کو نمودار ہونے سے روکنا چاہتی ہیں

عرب بادشاہتیں اب اسرائیل کی سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی خواہاں ہیں اور اضافی فائدہ اسرائیل کا وائٹ ہاؤس میں اثر و رسوخ ہے۔ انتظامیہ کوئی بھی ہو اسرائیل وائٹ ہاؤس کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں اسرائیل کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیل کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔

عرب-اسرائیل اتحاد کو بائیڈن انتظامیہ کے حوالے سے کچھ خدشات ہوسکتے ہیں لیکن ترکی کے حوالے سے بائیڈن کا مؤقف ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسی لیے اسرائیل-عرب اتحاد کو کچھ حوصلہ ہے کہ ترکی کی مخالفت میں انہیں بائیڈن انتظامیہ سے رعایتیں مل سکتی ہیں۔ البتہ اخوان کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کا رویہ مختلف ہوسکتا ہے کیونکہ عرب بہار بھی اوباما انتظامیہ کی ’پیشکش‘ تھی اور بائیڈن انتظامیہ میں اوباما کے بہت سے ارکان شامل ہیں۔

اخوان کے حوالے سے بائیڈن کا رویہ مختلف ہوسکتا ہے کیونکہ عرب بہار دراصل اوباما انتظامیہ کی پیشکش تھی
اخوان کے حوالے سے بائیڈن کا رویہ مختلف ہوسکتا ہے کیونکہ عرب بہار دراصل اوباما انتظامیہ کی پیشکش تھی

عرب-اسرائیل اتحاد کو بائیڈن انتظامیہ کے حوالے سے سب سے بڑا خدشہ ایران پالیسی پر ہے اور اگر بائیڈن انتظامیہ ایرانی جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے میں دوبارہ شامل ہوجاتی ہے تو یہ عرب-اسرائیل اتحاد کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔ بائیڈن کی ایران پالیسی کسی بھی غیر متوقع واقعے یا اشتعال انگیزی میں بدل سکتی ہے اور سینیٹ پر کنٹرول کی کشمکش بھی اس پالیسی پر اثر انداز ہوگی۔ امریکی سینیٹ میں اکثریت کا فیصلہ جارجیا میں ہونے والے رن آف کے نتیجے پر ٹکا ہوا ہے۔

غیر متوقع حالات یا اشتعال انگیزی سے بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی بدلوانے کی کوشش انتقالِ اقتدار سے پہلے شروع ہوچکی ہے۔ ایرانی جوہری پروگرام کے خالق محسن فخری زادے کا قتل ایسی ہی کوشش تھی۔ ایران اس کوشش کو سمجھتا ہے اسی لیے ایران کی طرف سے ردِعمل نرم تھا۔ امریکی سینٹرل کمانڈ مشرق وسطیٰ میں بی52 طیارے اور ایف35 کا اسکواڈرن لاکر کسی بھی غیر متوقع ردِعمل کے لیے تیار رہی لیکن ایران سخت ردِعمل سے گریزاں ہے اور انتقالِ اقتدار کا منتظر ہے۔ اب بھی ٹرمپ انتظامیہ آخری 2 ہفتوں میں اسرائیل کو استعمال کرکے خطے میں جنگ چھیڑنے کی کوشش کرسکتی ہے۔

سعودی شہر نیوم میں اسرائیل اور اعلیٰ سعودی قیادت کے مذاکرات بھی بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک پیغام تھے کہ واشنگٹن کے اتحادی اب نئی صف بندی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیلی قیادت کی ملاقات کی خبر سوچ سمجھ کر لیک کی گئی جس کے لیے ریاض نے رضامندی ظاہر کی تھی، اسی لیے اس لیک پر ریاض نے بُرا نہیں منایا۔

اسرائیل اور سعودی عرب میں تعلقات کا قیام شاہ سلمان کی زندگی میں ممکن نہیں اور اسرائیل اس بات کو سمجھتا ہے اسی لیے زیادہ بے چینی نہیں دکھائی جا رہی اور خفیہ طور پر دونوں ملک انٹیلی جنس سمیت کئی شعبوں میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات کا قیام ایسا سوال ہے جس نے سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش کو دنیا کے سامنے اجاگر کردیا ہے۔

معاہدات ابراہیمی کے بعد منامہ میں ہونے والے سیکیورٹی ڈائیلاگ میں شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کو مغرب کی نوآبادیاتی طاقت قرار دیا جو فلسطینیوں کو حراستی کیمپوں میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے اور جسے چاہتی ہے قتل کردیتی ہے۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر سے اٹھنے والی اس آواز نے اسرائیل کو ششدر کردیا اور منامہ ڈائیلاگ میں سعودی شہزادے کے بعد خطاب کے لیے آنے والے اسرائیلی وزیرِ دفاع کو وضاحت کرنا پڑی کہ شہزادہ ترکی نے معاہدہ ابراہیمی سے ہٹ کر جذبات کا اظہار کیا۔

ترکی الفیصل کی یہ آواز اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ برسوں مغرب میں سعودی سفیر رہے اور کئی مواقع پر اسرائیلیوں کے ساتھ سعودی روابط کا ذریعہ بنے۔ ایک اور آواز جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں ہے وہ شہزادہ بندر بن سلطان کی ہے۔ ترکی الفیصل اور بندر بن سلطان دراصل سعودی شاہی خاندان میں دو گروپوں کی نمائندہ آوازیں ہیں اور سعودی شاہی خاندان اس وقت اندرونی کشمکش کے حالات میں بڑا فیصلہ نہیں کر پائے گا اسی لیے مسلم دنیا کے دوسرے بڑے ملکوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ پہل کریں۔

عرب دنیا کی طرف سے دباؤ پاکستان بھی برداشت کر رہا ہے۔ اس دباؤ کی واضح نشانیاں متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستانیوں کے لیے ویزے بند کرنا اور بھارتی آرمی چیف کا عرب امارات اور سعودی عرب کا دورہ ہے۔

پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سوچ موجود رہی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس پر کام بھی ہوا اور سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں بھی کیں جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔

خورشید قصوری اور سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شیلوم کی 2005ء میں استنبول میں ہونے والی ملاقات—تصویر اے پی
خورشید قصوری اور سابق اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شیلوم کی 2005ء میں استنبول میں ہونے والی ملاقات—تصویر اے پی

پاکستان میں ایک بار پھر اس سوچ کے حامی سرگرم ہیں اور رائے عامہ بنانے کے لیے پہلی بار کھلی بحث چھیڑی گئی ہے۔ اس کے لیے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ کون اسرائیل کا پرانا دوست ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اجمل قادری کو میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ 2 بڑی جماعتیں جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں انہیں دباؤ میں لایا جاسکے اور کوئی مخالفت برقرار نہ رہے یا پھر مخالفت کرنے والوں کی اپنی ساکھ اس معاملے میں اس قدر مجروح کردی جائے کہ ان کی بات پُراثر نہ رہے۔ اجمل قادری نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ایک وفد نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی اور وہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔

پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے الزامات کی سیاست ملک کو کوئی فائدہ نہیں دے گی بلکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے روایتی عرب دوستوں کے ساتھ تعلقات کو خراب ہونے سے بچائے اور انہیں بھارتی پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے سے روکنے کی کوشش کرے۔ 70 برسوں میں کسی بھی بھارتی آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب اور ریاض-دہلی سیکیورٹی تعاون کے امکانات پاکستان کی سلامتی کے لیے چھوٹا خطرہ نہیں۔

سعودی شاہی خاندان اگر اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کو قربانی پر مجبور کررہا ہے تو پاکستان کو اپنی سالمیت اور خودمختاری پر سمجھوتہ کیے بغیر سفارتی سطح پر کوئی راہ نکالنا ہوگی۔ امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں خرابی پہلے سے مشکلات کی شکار معیشت کو بڑے نقصانات سے دوچار کردے گی۔

پاکستان سعودی عرب کی طرف سے اسٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے 2 ارب ڈالر واپس کرچکا ہے اور مزید ایک ارب ڈالر اگلے سال کے آغاز پر واپس کرنے کا پابند ہے۔ ان حالات میں اندرونی سیاست میں کوئی بھونچال مزید خرابی کا باعث بنے گا اور الزامات کی سیاست کا تسلسل کوتاہ بینی کے سوا کچھ نہیں۔ ابھی جس ایشیائی مسلم ملک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہو رہی ہے اس میں پاکستان کے علاوہ دوسرا ممکنہ نام انڈونیشیا کا ہے جو مسلم دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامی ایک مہم چلا رہے ہیں لیکن کسی کے پاس بھی قابلِ عمل تجویز نہیں کہ پاکستان کو اتنے بڑے سفارتی ایڈونچر سے کیا ملے گا؟

جیسے عرب امارات نے اس سفارتی ایڈونچر کے ذریعے ایف35 طیاروں اور ڈرونز تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی تک بھی اس کی رسائی ہوچکی ہے اور مستقبل میں مشترکہ دفاعی پیداوار کے منصوبے بن رہے ہیں۔

عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے ایف35 طیاروں اور ڈرونز تک رسائی حاصل کرلی ہے
عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے ایف35 طیاروں اور ڈرونز تک رسائی حاصل کرلی ہے

سوڈان نے دہشتگرد ملکوں کی فہرست سے نام نکلوا لیا ہے، معاشی پابندیوں سے نجات پائی ہے اور سب سے بڑھ کر مغربی صحارا پر خودمختاری تسلیم کرالی ہے۔ کیا پاکستان کے پاس کوئی آپشن ہے؟ کیا اسرائیل جو بھارت کا دفاعی پارٹنر ہے وہ پاکستان کو ٹیکنالوجی تک رسائی دے گا؟ کیا امریکا بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت بڑھائے گا؟ کیا سوڈان کی طرح پاکستان متنازع علاقوں پر خودمختاری تسلیم کروا پائے گا؟ کیا سوڈان کی طرح پاکستان کو قرض ریلیف دیا جائے گا؟ یہ ہیں وہ سوالات جن پر غور اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن قومی سیاسی قیادت کا رویہ محلے کی پھپھے کٹنی جیسا ہے جو خود پر بدکرداری کے الزامات کی صفائی نہیں دیتی بلکہ جواب میں دوسروں پر بدکرداری کے الزامات لگاتی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ معاہدات ابراہیمی کے دائرے میں آنے والے مسلم ممالک کے لیے فلسطینی ریاست سے بھی بڑا سوال قبلہ اول کو لاحق خطرات ہیں۔ امریکا، اسرائیل اور عرب امارات کے مشترکہ بیان کو ایک بار پھر غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔

اس مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل۔فلسطین تنازع کے منصفانہ، جامع اور پائیدار حل کے لیے عرب امارات اور اسرائیل اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، امن سے آنے والے تمام مسلمان مسجد اقصیٰ اور یروشلم کے تمام مذہبی مقامات پر عبادت کرسکیں گے اور تمام مذاہب کے پُرامن عبادت گزاروں کے لیے تمام مقامات کھلے رہیں گے۔

مشترکہ بیان کی یہ سطور واضح کرتی ہیں کہ مسجد اقصیٰ تمام مذاہب کے لیے کھولی جائے گی اور مسلح یہودی آبادکار اور اسرائیلی فوجی جو پہلے ہی آئے روز مسجد اقصیٰ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کرتے ہیں، اس مشترکہ بیان نے ان کی اس دراندازی کو جائز قرار دے دیا ہے۔

’پُرامن عبادت گزار‘ کے الفاظ کا استعمال کرکے اسرائیل کو کسی بھی فرد کو روکنے، ملک بدر کرنے یا اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اس معاہدے میں مسجد اقصیٰ کی نئے سرے سے حدبندی بھی کردی گئی ہے اور مسجد کا جو ڈھانچہ موجود ہے صرف اسے مسجد تسلیم کیا گیا ہے جبکہ صحن کو مسجد تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہی وہ دعویٰ ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل مسجد کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہودی آباد کار اسلحے کے زور پر صحن میں گھس کر اپنی مذہبی روایات پوری کرنا چاہتے ہیں۔ عرب امارات کے بعد بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی معاہدات ابراہیمی کا حصہ بن کر اسرائیلی دعوؤں کو تسلیم کرلیا ہے۔

مسلم ممالک کے لیے فلسظینی ریاست سے بڑا سوال القدس کی حفاظت ہے
مسلم ممالک کے لیے فلسظینی ریاست سے بڑا سوال القدس کی حفاظت ہے

پاکستان سمیت تمام عالمِ اسلام میں اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے حامیوں نے کیا اس نکتے پر غور کیا ہے؟ پاکستان سمیت تمام اسلامی دنیا پہلے ہی انتہاپسند عناصر کے نرغے میں ہے اور ان سے چھٹکارا پانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ کیا مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کیے جانے سے انتہا پسندی روکنے کی کوششوں کو دھچکا نہیں لگے گا؟ کیا دہشتگردی کی نئی لہر نہیں اٹھے گی؟ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی خودمختاری تسلیم کرنے کا شائبہ بھی انتہاپسندوں کو جواز فراہم کرسکتا ہے، اس لیے مسلم دنیا کو محتاط انداز سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

2020ء مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے خوشگوار سال نہیں رہا اور 2021ء اس سے زیادہ مشکلات سے بھرا سال ہے۔ عرب ملکوں میں خانہ جنگی، اسرائیل عرب اتحاد کے مقابل ایران اور اتحادی اور ترکی اور اس کے اتحادیوں کی جو نئی مثلث سامنے آئی ہے وہ خطے میں نئے چیلنجوں اور کشمکش کو پیدا کرے گی۔

سعودی شاہی خاندان میں موجود تقسیم کو مدِنظر رکھیں تو آنے والا سال سعودی مملکت کے مستقبل کے تعین اور شاہی خاندان کی قسمت کے لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ مسلم دنیا نئے تنازعات کا شکار ہوتی نظر آتی ہے جبکہ انتہا پسندی کی نئی لہر کے جنم لینے کے امکانات کی بنیاد 2020ء میں ہی رکھی جاچکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں