پیپلز پارٹی اجلاس کے بعد آج پی ڈی ایم کی اہم بیٹھک، اہم فیصلے متوقع

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2021
یہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کا پہلا اور انتہائی اہم اجلاس ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کا پہلا اور انتہائی اہم اجلاس ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہان سال 2021 کے پہلے دن (آج) رائے ونڈ میں جمع ہوں گے تاکہ مل کر استعفے اور آئندہ آنے والے دنوں میں قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی متعدد نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے معاملے پر متحدہ موقف پر عمل پیرا ہوں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز اسلام آباد میں رات گئے ہونے والے اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ایک موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ استعفوں اور آنے والے انتخابات میں شرکت کے معاملے پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں جس کے بعد وہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں: اگر پی ڈی ایم جماعتیں مل کر سینیٹ انتخابات لڑیں تو اچھا مقابلہ کرسکتی ہیں، بلاول

مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں کے اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت مخالف مہم کے حصے کے طور پر بڑے پیمانے پر استعفے دینے کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ہچکچاہٹ کے تناظر میں مختلف آپشنز پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق پی ڈی ایم رہنما جمعہ کو (آج) اپنی میٹنگ میں اہم امور کے بارے میں 'حتمی فیصلے' کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

مریم نواز نے مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ میڈیا سے مختصر گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ہم بلاول بھٹو زرداری سے براہ راست سننا پسند کریں گے، دیکھتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کے سامنے کیا پیش کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز دونوں نے بلاول زرداری کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا کہ آئندہ کے تمام فیصلے اجتماعی طور پر پی ڈی ایم پلیٹ فارم سے کیے جائیں گے اور اسے ایک 'مثبت رویہ' قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری نے پی ڈی ایم سے متعلق بڑا انکشاف کردیا

ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ ابھی تک ان کی پارٹی نے ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوگا۔

29 دسمبر کو کراچی میں پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا تھا کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو یقین ہے کہ اگر ہم (مشترکہ اپوزیشن) اجتماعی طور پر سینیٹ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو اس کا بہتر اثر ہو گا اور ہم بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ پی ڈی ایم کی قیادت سے قبل سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلے لیں گے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک کے مزید منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں گے۔

پیپلز پارٹی چیئرمین کی پریس کانفرنس کے دوران ایک دلچسپ نکتہ سامنے آیا جب ان سے سینٹرل ایگایکٹو کمیٹی اجلاس میں پارٹی رہنماؤں سے ہونے والی گفتگو کی تفصیلات اور رائے کے بارے میں پوچھا گیا لیکن انہوں نے تفصیلات دینے سے گریز کیا۔

ن لیگ کے سربراہ کی وطن واپسی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے اندر "مضبوط رائے" کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے اگلے سوال پر آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔

مزید پڑھیں: اب یہ کھلواڑ، سلیکٹڈ اور سلیکشن کا کاروبار بند ہوگا، بلاول بھٹو

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف جمعہ کو لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے پی ڈی ایم رہنماؤں سے بھی خطاب کریں گے، ایک اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف زرداری بھی کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کریں گے، تاہم سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ اور فرحت اللہ بابر پر مشتمل پارٹی وفد رائے ونڈ میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں شرکت کرے گا۔

سیاسی ماہرین پی ڈی ایم کے اجلاس کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہو رہا ہے جس میں پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ جے یو آئی(ف) اور مسلم لیگ (ن) سمیت پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کا مؤقف ہے کہ وہ موجودہ مجلس قانون ساز کو کوئی جواز فراہم نہ کریں جس کے بارے میں انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسے چھوڑ دیں گے۔

پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا پہلا مرحلہ 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ عام کی شکل میں اچانک اختتام کو پہنچا تھا کیونکہ قیادت اپنی مہم کو تیز کرنے کے لیے آئندہ کے کسی بھی منصوبے کا اعلان کرنے میں ناکام رہی تھی، اگرچہ پی ڈی ایم رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اضلاع کی سطح پر مظاہروں، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالوں اور لاہور کے جلسہ عام کے دوران لانگ مارچ کے بارے میں کوئی اعلان کریں گے لیکن اسٹیج سے اس طرح کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

بعدازاں پی ڈی ایم رہنماؤں نے فروری میں وزیر اعظم عمران خان سے استعفی دینے یا فیصلہ کن لانگ مارچ کا سامنا کرنے کے لیے 31 جنوری کی آخری تاریخ طے کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم باقاعدہ طور پر قصہ پارینہ بن گئی ہے، شبلی فراز

8 دسمبر کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے اجلاس کے بعد ہی مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا تھا کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تمام قومی و صوبائی اراکین اپنے استعفے 31 دسمبر تک پارٹیوں کے سربراہان کے حوالے کریں گے۔

مولانا نے پی ڈی ایم اتحاد کے 4 گھنٹے سے زیادہ طویل اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اس فیصلے کا اعلان کیا تھا جہاں اس طویل اجلاس میں نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی بالترتیب لندن اور کراچی سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا تھا۔

تاہم پی ڈی ایم قیادت اجتماعی استعفوں اور اس کے وقت کے انتہائی مہلک ہتھیار کے استعمال سے متعلق متفقہ منصوبے پر عمل کرنے میں ناکام رہی تھی اور مولانا فضل نے اعلان کیا تھا کہ اگلے روز پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی اسلام آباد میں ملاقات کرے گی تاکہ مزید جلسوں اور مظاہروں کے شیڈول اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ کا فیصلہ کر سکے۔

اگلے دن اگرچہ اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس ہونے سے پہلے پی ڈی ایم قائدین ایک بار پھر دوپہر کے کھانے کے وقت اجلاس کے لیے مولانا کی رہائش گاہ پر جمع ہوئے جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کی پارٹی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد اجتماعی استعفوں کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔

پی ڈی ایم کے ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما مجوزہ اقدام پر زیادہ پرجوش نہیں تھے اور آصف زرداری مستقبل میں استعمال کے لیے استعفے مولانا فضل کے حوالے کرنے کی نواز شریف کی تجویز کے حامی نہیں تھے اور ان کی تجویز پر ہی دیگر جماعتوں نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا تھا کہ استعفے پارٹی کے سربراہان جمع کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں