نیب پر واجب الادا رقم کے سلسلے میں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن مشکلات کا شکار

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2021
عدالت نے نیب پر واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر پاکستان ہائی کمیشن پر 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا، رپورٹ  - فائل فوٹو:ٹوئٹر
عدالت نے نیب پر واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر پاکستان ہائی کمیشن پر 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا، رپورٹ - فائل فوٹو:ٹوئٹر

لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو رواں ہفتے قومی احتساب بیورو (نیب) پر واشنگٹن میں قائم ایک ایسیٹ ریکوری فرم کی واجب الادا رقم کے تنازع کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رپورٹس کے مطابق برطانیہ کی ایک ہائی کورٹ نے غیر ملکی کمپنی کو نیب پر واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ 87 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

ہائی کمیشن کے ذرائع نے ڈان کو اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ مزید کارروائی کے لیے نیب اور اٹارنی جنرل پاکستان کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادارے کو واجب الادا جرمانے کی ادائیگی کی آخری تاریخ 31 دسمبر دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: پاکستانی ہائی کمیشن میں سنگین مالی بےقاعدگیاں

پرویز مشرف دور میں برطانوی ریاست آئل آف مین میں رجسٹرڈ ایک کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی نے اس وقت کی حکومت اور نو قائم شدہ نیب کو مبینہ ناجائز دولت کے ذریعہ خریدے گئے غیر ملکی اثاثوں کا سراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

کمپنی نے واجب الادا 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے لیے لندن ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

گزشتہ سال ہائی کورٹ میں دائر دعوے سے ظاہر ہوا ہے کہ کمپنی نے لندن کی عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی کہ اس کمپنی کو حکومت پاکستان کی طرف سے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کی جانی چاہیے۔

براڈشیٹ نے درخواست میں 4 ہزار 758 ڈالر یومیہ اس پر سود بھی طلب کیا تھا۔

دسمبر 2018 میں ، سابق انگلش کورٹ کے اپیل جج سر انتھونی ایونز کیو سی نے بطور ثالث حکومت پاکستان کی جانب سے براڈشیٹ کو 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا حکم جاری کیا تھا۔

رواں سال جولائی میں حکومت نے ثالثی کی اپیل کی لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔

ثالثی نے پایا تھا کہ پاکستان اور نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے پر عمل نہیں کیا تھا اور فیصلہ دیا کہ کمپنی ہرجانے کی حقدار ہے۔

ایرانی نژاد آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتر کاوے موساوی کی ملکیت بروڈشیٹ عدالت کے ذریعہ مقرر کردہ لیکویڈیٹر کی نگرانی میں ہے جس نے ابتدائی طور پر ثالثی کو فنڈ فراہم کیا تھا اور اس سے قبل انگلینڈ میں غیرمتعلقہ کارروائی میں توہین عدالت کے الزام میں ایک سال کی قید کی سزا کاٹی تھی۔

براڈشیٹ کا دعویٰ ہے کہ اس کا قیام 20 جون 2000 کو ایک اثاثہ بازیافت کرانے کے معاہدے کے لیے کیا گیا تھا اور اس نے اس وقت کے صدر اور نیب کے چیئر مین کے ذریعے ریاست سے جعلسازی سے حاصل کیے گئے فنڈز اور دیگر اثاثوں جو بدعنوانی کے ذریعے حاصل کی گئی ہوں اور پاکستان سے باہر رکھی گئی ہوں، کی وصولی کے مقاصد کے لیے معاہدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج پر مودی کی برطانوی وزیراعظم سے شکایت

براڈشیٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی کمپنی کی حیثیت سے تشکیل دی گئی ہے جو اثاثوں اور رقوم کی بازیابی میں مہارت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کی چیزوں کا سراغ لگانے، تلاش کرنے اور ریاست میں واپس منتقل کرنے میں مصروف ہے۔

2003 میں نیب کی جانب سے براڈشیٹ کی خدمات ختم کردی گئی تھیں تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ انہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ احتساب ادارے کا شریف خاندان کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ سعودی عرب میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور اس تصفیہ پر دعوی دائر کیا گیا ہے۔

اس کے وکیل کے مطابق ، جنرل مشرف نے کمپنی کی خدمات شریف خاندان اور دیگر سرکاری عہدیداروں کی ملکیت میں بیرون ملک مقیم جائیدادوں کا سراغ لگانے کے لیے طلب کی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں