خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا، شہزاد اکبر

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2021
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ، اور شہباز شریف کے اثاثے بڑھنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے، خواجہ آصف نے بھی اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف سے جب 22 لاکھ روپے ماہانہ کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ کیش میں لین دین کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خواجہ آصف کی تنخواہ کی مد میں 14 کروڑ روپے ملنے کا ثبوت دکھائیں، ان کی ساری رقم دبئی کے اکاؤنٹ میں کیش ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا اور دبئی کے اکاؤنٹ سے پاکستان کے اکاؤنٹ میں ٹی ٹیاں لگائیں'۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 'تنخواہوں سے متعلق خواجہ آصف کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے، وہ کونسا ایسا کاروبار کرتے تھے جو صرف کیش میں ہی ہوتا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ وزارت سے فارغ ہوئے تو ان کی دبئی کی نوکری بھی چلی گئی، وہ دبئی کی کمپنی میں اب نوکری کیوں نہیں کرتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'خواجہ آصف اب تک نیب کو مطمئن نہیں کرسکے ہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ 'خواجہ آصف نے گوجرانوالہ کی سوسائٹی میں 80 لاکھ کا پلاٹ لیا اور اسی کمپنی کو پلاٹ 4 کروڑ کا واپس کردیا'۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 'سیالکوٹ میں پلاٹ خواجہ آصف نے 12 کروڑ 50 لاکھ کا فروخت کیا، خواجہ آصف نے فروخت کا جو معاہدہ اور چیک دکھایا وہ چیک بک 6 ماہ بعد جاری ہوئی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خواجہ آصف قانونی طور پر اپنی جنگ لڑیں، عوام کو گمراہ نہ کریں'۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ قانون کے تحت عوامی عہدہ داروں کی نامعلوم دولت کو بدعنوانی سمجھا جاتا ہے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے نواجوان امور عثمان ڈار نے سیاسی تشدد کے تاثر کی تردید کی۔

انہوں نے کہا خواجہ آصف کا کوئی مشہور کاروبار نہیں ہے لیکن وہ سیالکوٹ کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔

عثمان ڈار نے کہا کہ یہ انوکھی بات ہے کہ خواجہ آصف کسی ملک کے وزیر دفاع ہوتے ہوئے بیک وقت غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں