پرتشدد پالیسیوں کے باعث اسرائیلی فوج میں شمولیت سے انکار کرنے والی لڑکی
اسرائیل کے ہر مرد و خاتون بالغ شخص سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار فوج میں شمولیت اختیار کرکے نہ صرف جنگی تربیت حاصل کرے گا بلکہ وہ وطن سے محبت کو بھی قریب سے سیکھے گا۔
تاہم نئی نسل کے کچھ یہودی نوجوان ایسے بھی ہیں جو ریاست کی پرتشدد، انسانیت سوز اور عدم مساوات کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے فوج کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
لیکن فوج میں شمولیت نہ کرنے والے ایسے باغی نوجوانوں کو جیل جانے سمیت دیگر طرح کی سزائیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور ایسی ہی سزا برداشت کرنے والی 19 سالہ یہودی لڑکی ہلل رابن بھی ہیں۔
ہلل رابن نے دیگر عام یہودی لڑکیوں کے برعکس اسرائیلی فوج میں شمولیت کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں جیل جانا پڑا۔
ہلل رابن کو اسرائیلی فوج میں شمولیت نہ کرنے کے الزام میں ابتدائی طور پر اگست 2020 میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا تھا۔
ہلل رابن پر فلسطینیوں سے ہمدری، غداری اور بغاوت جیسے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کرکے انہیں عدالتوں میں بھی پیش کیا گیا تھا اور مجموعی طور پر انہیں 56 دن تک جیل میں رکھا گیا۔
تقریباً ایک ماہ تک جیل میں رکھنے کے بعد نومبر 2020 کے آخر میں انہیں رہا کیا گیا اور عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے معلوم ہوسکے کہ ہلل رابن نے فلسطینیوں سے سیاسی وابستگی یا ہمدردی کے باعث فوج میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی۔
جیل سے آزادی کے چند ہفتوں بعد اب ہلل رابن نے مڈل ایسٹ مانیٹر (میمو) کو خصوصی انٹرویو دیا ہے، جس میں انہوں نے پہلی بار بتایا کہ انہوں نے اپنے ملک کی فوج میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کی؟
ہلل رابن کا کہنا تھا کہ جب وہ بالغ ہی نہیں ہوئی تھی، تب ہی انہیں ذہنی طور پر تیار کیا گیا تھا کہ وہ 20 سال کی عمر تک فوج میں چلی جائیں گی۔
تاہم 20 سال کی عمر تک انہیں اسرائیلی فوج کی پرتشدد پالیسی اور انسانیت سوز واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے فوج میں شمولیت اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہلل رابن کے مطابق اگر وہ اسرائیلی فوج میں شامل ہوکر تربیت حاصل کرتیں یا کچھ ماہ تک خدمات سر انجام دیتیں تو ان کا عمل اسرائیلی فوج کے تشدد اور انسانیت سوز واقعات کو جائز قرار دیتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ اسرائیلی فوج کی پرتشدد کارروائیوں اور عدم مساوات کے خلاف اقدامات کو تحفظ فراہم نہیں کرنا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے فوج میں شمولیت سے انکار کیا۔
ہلل رابن کا کہنا تھا کہ فوج میں شمولیت سے انکار کے بعد انہوں نے ایک ایسے گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی جو یہودیوں کے فوج میں شمولیت کے خلاف کام کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ گروپ محدود افراد پر مشتمل ہے، جن کا خیال ہے کہ لازمی نہیں کہ ہر یہودی کو زندگی میں کم از کم ایک بار اسرائیلی فوج کا حصہ بننا چاہیے۔
ہلل رابن کے مطابق اگرچہ ان کی ہمدردیاں فلسطین سے وابستہ نہیں، تاہم وہ انسانی حقوق کی علمبردار ہیں اور فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے تشدد کی وجہ سے ہی وہ فوج کا حصہ نہیں بنیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج کا حکومتی نام اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) ہے اور اسے باضابطہ طور پر 1948 میں تشکیل دیا گیا تھا۔
آئی ڈی ایف اور اسرائیلی حکومت کے ضوابط کے تحت ہر اسرائیلی کو اس کا حصہ بن کر جنگی تربیت لینی ہوگی۔
تاہم اسرائیل میں آباد 20 فیصد عرب نسل کے افراد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مرضی کے مطابق فوج میں شمولیت سے انکار بھی پر کرسکتے ہیں۔
تاہم اسرائیلی یہودیوں کو فوج میں شمولیت سے انکار کا اختیار نہیں اور انکار کرنے والے افراد کو جیل سمیت قانونی کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے تاہم اگر کسی شخص کے ساتھ طبی مسئلہ ہے تو اسے رعایت دی جاتی ہے۔