کیا مصباح کو چیف سلیکٹر کے بعد ہیڈ کوچ کے عہدے سے بھی ہٹایا جا رہا ہے؟

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2021
مصباح الحق کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹائے جانے کی افواہیں زیر گردش ہیں— فائل فوٹو بشکریہ پی سی بی
مصباح الحق کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹائے جانے کی افواہیں زیر گردش ہیں— فائل فوٹو بشکریہ پی سی بی

قومی ٹیم کی دورۂ نیوزی لینڈ میں مایوس کن کارکردگی کا سلسلہ جاری ہے اور اس بدترین صورتحال کے دوران چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنے والے مصباح الحق کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹانے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

قومی ٹیم کی دورۂ نیوزی لینڈ میں مسلسل مایوس کن کارکردگی پر برہم شائقین کرکٹ نے جہاں کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا وہیں قومی ٹیم مینجمنٹ کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان 362رنز کے خسارے سے دوچار، اننگز کی شکست کا خطرہ منڈلانے لگا

دورہ نیوزی لینڈ میں پاکستانی ٹیم کو ٹی20 سیریز میں 1-2 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

البتہ اب سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد قومی ٹیم کو اننگز کی شکست کا خطرہ درپیش ہے۔

آسٹریلیا اور انگلینڈ میں قومی ٹیم کی اوسط درجے کی کارکردگی کے بعد چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنے والے مصباح الحق کا اب ہیڈ کوچ کا عہدہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے اور رپورٹس ہیں کہ دورہ نیوزی لینڈ کے بعد اس عہدے سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ مصباح نے چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد محمد وسیم کو یہ عہدہ سوپ دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی آسٹریلیا کو بائیکاٹ کی دھمکی، ٹیسٹ سیریز غیر یقینی صورت حال کا شکار

پی ٹی وی اسپورٹس کے پروگرام 'گیم آن ہے' میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان تیسرے دن کا کھیل شروع ہونے سے قبل میزبان نے کہا کہ یہ خبر زیر گردش ہے کہ شاید ہیڈ کوچ مصباح الحق کو بھی عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے پروگرام کے مہمان اور قومی ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف سے پوچھا کہ کیا مصباح کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس بات میں کافی حد تک حقیقت ہے۔

جب پروگرام میں موجود دوسرے مہمان اور قومی ٹیم کے سابق فاسٹ باؤلر شعیب اختر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افواہ نہیں ہے، اس بارے میں بات چیت ہو رہی ہے۔

راشد لطیف نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مصباح کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے ہٹانے کے خیال سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ اب اس چیز کی متحمل نہیں ہو سکتی، ہم ٹیسٹ کرکٹ میں پچھلے کچھ سالوں میں بہت نیچے آئے ہیں اور بہت پیچھے نظر آ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’ٹی20 میں پاکستان کا زوال شروع ہوا نہیں، بلکہ اس کا آغاز ہوچکا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ توقع کرتے ہیں کہ یہ افواہ حقیقت کا روپ نہیں دھار لے کیونکہ ہم بڑی مشکل سے مصباح کو بطور چیف سلیکٹر لے کر آئے ہیں، ہم نے ہیڈ کوچ بھی بنایا اور وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے بھی کوچ رہے لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ وہ ہر چیز چھوڑتے چلے گئے۔

سابق وکٹ کیپر نے کہا کہ بڑے نام اس عہدے پر آنے کے لیے ہامی نہیں بھرتے ہیں لیکن مصباح نے ہامی بھر لی، اگر آپ نے مصباح کو ہٹا دیا تو وہ بالکل بھی نہیں آئیں گے، تو ایسا نہ کریں کہ ہمارے پرانے کھلاڑی بددل ہو جائیں اور اُمید ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ایسا قدم نہیں اٹھائے گا۔

اس موقع پر شعیب اختر نے کہا کہ مصباح کی صلاحیت اور استعداد کا ہمیں بھی پتا تھا اور انہیں بھی پتا تھا، مصباح اپنی بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے، دیکھنے والے کی غلطی ہے کہ آپ کو یہ 'بہترین' نظر نہیں آیا تھا، دیکھنے والوں کی غلطی ہے کہ ان کا 'بہترین' ٹھیک نہیں ہے، وہ بہترین دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔

راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور سابق فاسٹ باؤلر نے دعویٰ کیا کہ تین مہینے میں پاکستان کرکٹ بالکل ٹھیک ہوسکتی ہے، میں گارنٹی دیتا ہوں، تین مہینے، تین بندے، تین ادارے پکڑوں گا، تین بندے لاؤں گا، نہ ٹیم صحیح ہو تو میرا نام تبدیل کر دینا، تاریخ میں سے میرا نام ہٹا دینا۔

واضح رہے کہ ورلڈ کپ 2019 کے بعد چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے عہدے میں توسیع کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی اور مکی آرتھر کی زیر سربراہی ٹیم مینجمنٹ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان شاہینز نے نیوزی لینڈ اے کو 101 رنز سے شکست دے دی

پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنا دیا تھا اور یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کرکٹ میں دونوں اہم عہدے ایک ہی فرد کو دیے گئے ہوں۔

ٹیم مینجمنٹ میں مزید تبدیلیاں کرتے ہوئے سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹا کر اظہر علی کو ٹیسٹ اور بابراعظم کو ٹی20 ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی اور بعدازاں بابر کو ون ڈے اور ٹیسٹ سمیت تینوں فارمیٹ میں کپتان بنا دیا گیا۔

مصباح کی کوچنگ اور سلیکشن میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی اور قومی ٹیم سری لنکا، بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسی کمزور ٹیموں کے سوا بڑے حریفوں کے خلاف بالکل بے بس نظر آئی۔

قومی ٹیم 10 میں سے صرف دو ٹیسٹ میچ بالترتیب سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف جیت سکی جبکہ آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں قومی ٹیم کو 4 ٹیسٹ میچوں مات ہوئی۔

ٹی20 میچوں میں لگاتار 11 سیریز جیتنے کا عالمی ریکارڈ بنانے والی قومی ٹیم کو 17 میں سے 7 میچوں میں فتح نصیب ہوئی جس میں سے پانچ زمبابوے اور بنگلہ دیش جیسے کمزور حریفوں کے خلاف حاصل ہوئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں