نیب سے مطمئن نہیں، احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 06 جنوری 2021
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے جعلی اکاؤٹنس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں کیونکہ احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کے خلاف ایکشن لیں گے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، اس دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشاہ کی درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کریں گے تاہم سرکاری افسران کی ضمانت کی مخالفت کریں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ (ملک ریاض کے داماد) زین ملک کو پلی بارگین کی درخواست پر 15 فروری تک کا وقت دیا گیا ہے، تب تک اگر زین ملک نے این او سی نہ دیا تو ان کے خلاف تحقیقات ہوں گی۔

مزید پڑھیں: 'کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا ہے، کوئی سنگین جرم کر کے بھی آزاد گھومتا ہے'

اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس مظاہر علی اکبر نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے، چھوٹے افسران کو پکڑ لیا، کیا اصل فائدہ لینے والوں کو پکڑتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اس اسکینڈل کے اصل ملزم پر نیب نے ہاتھ نہیں ڈالا، نیب کے پاس اپنی مرضی سے کام کرنے کا اختیار نہیں، ملک میں بکری چور 5 سال کے لیے جیل جاتا ہے، بڑی کرپشن والے آزاد گھوم رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ ملک بچانا ہے یا نہیں؟ نیب نے اپنی مرضی کرنی ہے تو سیکش 9 میں ترمیم کرے پھر جو مرضی کرے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب اپنی مرضی نہیں کرتا، ملزم کو پکڑ کر 24 گھنٹوں میں احتساب عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے۔

اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ اس ملک کے ساتھ نیب کیا کر رہا ہے، کرتا نیب ہے بھگتتی سپریم کورٹ ہے، ملزم کو چھوڑنے کا الزام سپریم کورٹ پر آتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب بڑے آدمی پر ہاتھ نہیں ڈالتا، سپریم کورٹ کا نیب کے بارے میں یہ تاثر ہے تو عام آدمی کا کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو پتا ہے زین ملک کے لیے این او سی لانا مشکل ہے، زین ملک اگر این او سی لے آئے تو پھر آپ این او سی جاری کرنے والوں کو مقدمے میں گھسیٹیں گے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ این او سی آیا تو جاری کرنے والے کو مقدمے میں شامل کریں گے۔

جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ تو پھر نیب نے مرکزی ملزم کو 15 فروری تک مہلت کیوں دی۔

دوران سماعت دیگر اراکین بینچ کے ریمارکس کے ساتھ ہی سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی نیب سے متعلق کہا کہ نیب کی کارکردگی رپورٹ پڑی ہے، ادارے نے اربوں روپے اکھٹے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب پر سرکار کا ہی نہیں بلکہ ہر طرف سے دباؤ ہوتا لیکن قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہیے اور احتساب بھی قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کے خلاف ایکشن لیں گے، ہم نیب سے مطمئن نہیں ہیں، نیب کو کام سے کون روکتا ہے ہمیں بتائیں تاکہ اسے پکڑیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نیب کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی نے مجھ پر مہربانی کی تو میں اس پر مہربانی کروں، نیب کو بہادری اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

عدالتی ریمارکس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمارے اوپر کوئی دباؤ نہیں جبکہ نہ ہی کوئی کام سے روکتا ہے۔

اس پر جسٹس عمر نے کہا کہ سینیٹ سمیت مختلف فورم پر نیب پر بات ہورہی ہے، نیب نے سرکاری افسروں کو دبایا، اصل بینفشریز کو پوچھا نہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلا ریفرنس، دوسرا ریفرنس یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے، معلوم ہے کہ نیب مقدمات عام فوجداری کیسز نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب سرکاری افسران کو سب سے پہلے گرفتار کرلیتا ہے لیکن جس کے خلاف شواہد ہوں اسے گرفتار نہیں کرتا۔

بعد ازاں عدالت نے جعلی اکاؤنٹ کیس میں ڈاکٹر ڈنشا کی ضمانت منظور کرلی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا ملک سے باہر نہیں جاسکتے اور وہ نیب کے ساتھ تفتیش میں تعاون کریں گے۔

پس منظر

واضح رہے کہ بحریہ آئیکون ٹاور ریفرنس جعلی اکاؤنٹس کیس کا ہی ایک حصہ ہے، یہ پہلا ریفرنس ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین کے ساتھ نیب نے ان کے داماد زین ملک کو بھی ملزم نامزد کیا ہیں۔

ان کے علاوہ ریفرنس میں نامزد ملزمان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر یوسف بلوچ، وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق مشیر ڈاکٹر ڈنشا انکل سریا، سابق چیف سیکریٹری سندھ عبدالسبحان میمن، سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس لیاقت قائم خانی، وقاص رفعت، غلام عارف، خواجہ شفیق، جمیل بلوچ، افضل عزیز، سید محمد شاہ، خرم عارف، عبدالکریم پلیجو، خواجہ بدیع الزمان اور دیگر شامل ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ باغ ابنِ قاسم سے متصل رفاہی پلاٹ پر بحریہ ٹاؤن نے آئیکون ٹاور تعمیر کیا ہے، جسے غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ملک ریاض کے ٹھکانے سے لاعلم، جج کا اظہار برہمی

واضح رہے کہ یہ بلند و بالا عمارت کراچی میں بحیرہ عرب کے ساحل کے نزدیک واقع ہے جس کی 62 منزلیں ہیں جس میں سے 40 منزلیں مختلف استعمال کی ہیں۔

قبل ازیں جون 2019 میں سندھ ورکس اینڈ سروسز کے سابق سیکریٹری سجاد عباسی کو آئیکون ٹاور کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

عدالت میں دیے گئے بیان میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جب ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو تعینات تھے اس وقت انہوں نے یہ رفاہی پلاٹ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا کو فروخت کیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا نے یہ پلاٹ ملک ریاض کو فروخت کیا جنہوں نے اس پر بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں