ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے فتح تصور کیے جا رہے عدالت کے اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا جس میں لاہور ہائی کورٹ نے اس ہفتے قرار دیا کہ جنسی استحصال کا شکار خواتین کا 'کنوارہ پن' جانچنے کے لیے کیا جانے والا دو انگلیوں کا ٹیسٹ (ٹو فنگر ٹیسٹ) غیرقانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

30 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک نے تحریر کیا کہ کنوارے پن جانچنے کا ٹیسٹ متاثرہ خاتون کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کے خلاف ہے جو ایک فرد کی سیکیورٹی اور عزت نفس سے متعلق ہے۔

مزید پڑھیں: ریپ کی تصدیق کے لیے فنگر ٹیسٹ غیر قانونی قرار

انہوں نے مزید قرار دیا کہ کنوارے پن کا ٹیسٹ متاثرہ خاتون سے امتیازی رویہ ہے کیونکہ یہ ان کی جنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے (اور) لہٰذا آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ جنسی استحصال کے مقدمات میں اس طرح کے معائنے کی کوئی فارنسک اہمیت نہیں ہے۔

فیصلہ بے شک اہم ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ صدر مملکت کی جانب سے پچھلے سال منظور کیے گئے آرڈیننس نے اس فرسودہ ٹیسٹ پر پہلے سے پابندی عائد کردی تھی لیکن یہ فیصلہ ان وجوہات کی مزید وضاحت کرتا ہے جو اس ٹیسٹ کو غیرقانونی بناتے ہیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے گفتگو خطرناک ردعمل اور حتیٰ کہ تشدد کو جنم دیتی ہے، اس میں اس طرح کی پیشرفت ایک سنگ میل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ٹو فنگر ٹیسٹ' کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر لوگوں کا اظہارِ مسرت

یہ جنسی جرائم کے مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت کے اہم کردار کی نشاندہی کرتا ہے جہاں فارنسک جیسے عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ جسٹس عائشہ ملک نے مشاہدہ کیا کہ یہ ٹیسٹ غیرسائنسی، عزت نفس کو مجروح اور امتیازی رویے کا حامل ہے ۔۔۔ یہ فیصلہ اس بات کی ضروری یاد دہانی کراتا رہے گا کہ خواتین بھی برابر کی شہری ہیں اور ان سے قانون کے مطابق اسی طرح کا رویہ روا رکھا جانا چاہیے۔

گوکہ متاثرہ خاتون کی مزید تضحیک اور اذیت کا سبب بننے والے اس فرسودہ طریقہ کار پر اب پابندی عائد کردی گئی ہے تاہم جنسی استحصال کے مقدموں کی تحقیقات کے سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں میڈیکو لیگل افسر کا کردار اہم ہے کیونکہ وہ متاثرہ فرد کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں، نہ صرف ان کی فارنسک معیارات کے مطابق ثبوت اکٹھا اور محفوظ بنانے کے لیے تربیت کرنی چاہیے بلکہ ان کی تعلیم کے ایک اہم حصے میں اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ جنسی استحصال کی متاثرہ خاتون جو زخم پہنچے ہیں، ان کو کسی طرح محدود کیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزارت قانون نے 2 انگلیوں کا ٹیسٹ مسترد کردیا

اکثر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کرنے والی خواتین کو مشکوک اور فیصلہ کن رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کردار کشی، متاثرہ فرد کو ہی ذمے دار قرار دینے اور موروثی تعصب کی شکایات عام سی بات ہے، جس کی مثال ہمیں بھیانک موٹروے ریپ کیس کے دوران اس وقت کے سی سی پی او لاہور کے بیان میں ملتی ہے، بدقسمتی سے اس طرح کے رویے اوپر تک سرائیت کر چکے ہیں۔

اب یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ہمارے نظام میں موجود صنفی امتیاز کو ختم کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں