بڑی اسٹریمنگ سروسز کا انکار،جمال خاشقجی کے قتل پر بنی فلم کی آن ڈیمانڈ ریلیز

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2021
فلم کی اسکریننگ کے دوران برائن فوگل نے میڈیا کمپنیز سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی دستاویزی فلم سے خوفزدہ نہ ہوں— فوٹو: اے پی
فلم کی اسکریننگ کے دوران برائن فوگل نے میڈیا کمپنیز سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی دستاویزی فلم سے خوفزدہ نہ ہوں— فوٹو: اے پی

بڑی اسٹریمنگ سروسز کے انکار کے بعد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر بنی فلم 'دی ڈیسیڈنٹ' اب برائرکلف انٹرٹینمنٹ کی جانب سے خریدے جانے کے بعد تھیٹرز اور آن ڈیمانڈ ریلیز ہوگئی ہے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر بنائی جانے والی فلم 'دی ڈیسیڈنٹ' کے سنڈینس فلم فیسٹیول میں پریمیئر سے قبل ہی ہدایت کار برائن فوگل کو اندازہ تھا کہ ان کی دھماکا خیز دستاویزی فلم کو فروخت میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔

اے پی کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے آن ڈیمانڈ سروس پر دستیاب ہونے والی اس فلم کو گزشتہ برس جنوری میں ہونے والے سنڈینس فلم فیسٹیول میں پیش کیے جانے کا انتظار کیا جارہا تھا۔

علاوہ ازیں اولمپکس میں روسی ڈوپنگ سے متعلق برائن فوگل کی ایک فلم ایکارس بہترین دستاویزی فلم کا اکیڈمی ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'

ان کی فلم 'دی ڈیسیڈنٹ' میں جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگز، ان کی منگیتر خدیجے چنگیز کی شرکت اور سعودی عرب کی ہیکنگ کی کوششوں کی تفصیلات بشمول ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کے موبائل فون تک رسائی حاصل کرنا بھی شامل ہے۔

سنڈینس فلم فیسٹیول میں اس فلم کے پریمیئر میں شریک ہونے والوں میں ہیلری کلنٹن، ایلس بالڈون اور نیٹ فلیکس کے چیف ایگزیکٹو ریڈ ہاسٹنگز بھی شامل تھے۔

فلم کی اسکریننگ کے دوران برائن فوگل نے میڈیا کمپنیز سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی دستاویزی فلم سے خوفزدہ نہ ہوں۔

انہوں نے فلم فیسٹیول کے بعد پارٹی میں کہا تھا کہ 'میرے خوابوں کے خوابوں میں تقسیم کار کمپنیاں سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہوں گی'۔

برائن فوگل نے کہا تھا کہ وہ پُرامید ہیں کہ نیٹ فلیکس، ایمیزون، ایچ بی او اور دیگر آگے بڑھیں گے، کوئی بھی جو جمال خاشقجی کی کہانی کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم فراہم کرے جو 'دی ڈیسیڈنٹ' میں ایک مہلک، حقیقی زندگی کے جیوپولیٹیکل تھرلر کی کہانی ہے۔

تاہم انہیں فلم سے متعلق پہلے ہی پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوگیا تھا، اسٹریمرز جنہوں نے سنڈینس فلم فیسٹیول کی ٹاپ فلمز خریدیں اور دی ڈیسیڈنٹ کے پریمیئر سے قبل ہی اسے دیکھنے کا کہا تھا اسے نہیں خریدا۔

برائن فوگل نے لاس اینجلس سے زوم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کئی بڑے اسٹریمرز اس دن وہاں موجود تھے، ان کے ہیڈز آف کانٹینٹ نہیں تھے، ان کے چیف ایگزیکٹو افسران (سی ای اوز) تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے اُمید کی تھی وہ سب اس فلم کو خریدنا چاہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

برائن فوگل نے کہا کہ ہمیں 10 لاکھ ڈالر کیا ایک ڈالر کی بھی پیشکش نہیں ہوئی جبکہ صرف 'بوائز اسٹیٹ' کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے جو ایک حیرت انگیز فلم ہے لیکن یہ ایک 17 سالہ لڑکے سے متعلق ہے جو ٹیکساس میں موک پولیٹیکس کھیلتا ہے۔

ایک حقیقی سیاسی دائرے پر بنی فلم آج آن ڈیمانڈ پر ڈیبیو کرے گی، جسے آخر کار برائل کلف انٹرٹینمنٹ نے خریدا تھا جو ٹام اورٹن برگ کی جانب سے قائم کی گئی آزاد تقسیم کار کمپنی ہے۔

خیال رہے کہ ٹام اورٹن برگ ایک تجربہ کار فلم ایگزیکٹو ہیں جنہیں اوپن روڈ فلم کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اسپاٹ لائٹ اور سنوڈین جیسی فلمز ڈسٹری بیوٹ کی تھیں۔

200 تھیٹرز میں 2 ہفتے تک چلنے کے بعد دی ڈیسیڈنٹ آئی ٹیونز، ایمیزون اور روکو پر دستیاب ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ بڑی میڈیا کمپنیز کی جانب سے دی ڈیسیڈنٹ سے متعلق یہ ردعمل اس لیے نہیں کہ یہ فلم اچھی یا اہم نہیں بلکہ اس لیے یہ آزادی اظہار رائے سے متعلق سعودی کریک ڈاؤن کے خلاف کھلا چیلنج ہے اور یہ ردعمل اسٹریمنگ سروسز پر سیاسی فلموں کے مستقبل سے متعلق ممکنہ خطرات کے حوالے سے سوالات اٹھارہا ہے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد کے خلاف امریکا میں مقدمہ دائر کردیا

انہوں نے کہا کہ نیٹ فلیکس نے دستاویزی فلموں کے ناظرین کی تعداد میں اضافے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے لیکن میڈیا کمپنیاں سبسکرائبرز کی تعداد میں اضافے کی خاطر سنسرشپ سے متعلق مطالبات کی پابند ہورہی ہیں۔

2019 میں سعودی شکایت کے بعد نیٹ فلیکس نے حسن منہاج کے پیٹرائٹ ایکٹ کی ایک قسط ہٹادی تھی جس میں جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق مذمت کی گئی تھی۔

برائن فوگل نے کہا کہ جب بہت زیادہ پیسہ داؤ پر لگا ہو، کاروباری مفاد ہو تو کیا چیز پریشانی کا باعث نہیں بن رہی وہ جیت رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے یہ کمپنیاں بڑی ہورہی ہیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ مواد سے متعلق وہ انتخاب میں کم سے کم خطرہ مول رہے ہیں۔

برائن فوگل کے لیے دی ڈیسیڈنٹ کا تجربہ جمال خاشقجی کو خاموش کرانے کا عکاس ہے، اس فلم کی فنانسک ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے کی تھی۔

فلم میں جمال خاشقجی کی منگیتر، ترک حکام اور اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے انٹرویو بھی شامل ہیں، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے مالک جیف بیزوس کو محمد بن سلمان کے ذاتی واٹس ایپ اکاؤنٹ بھیجی گئی ایک فائل کے ذریعے ہیک کیاگیا۔

یہی ہیکنگ اسکیم جمال خاشقجی سے وابستہ سماجی کارکن عمر عبدالعزیز کے لیے بھی مبینہ طور پر استعمال کیا گیا۔

یہ فلم سوال اٹھاتی ہے کہ ممالک اور کمپنیاں اس ملک کے ساتھ کاروبار کررہی ہیں جو مخالفین کو قید کرنے اور قتل کرنے کے طریقے اپناتا ہے۔

استنبول سے بذریعے فون پر بات کرتے ہوئے خدیجے چنگیز نے کہا کہ 'میں اُمید کرتی ہوں کہ یہ فلم جمال خاشقجی کا نام، ان کی زندگی اور اقدار کو زندہ رکھے گا'۔

انہوں نے کہا کہ میں اُمید کرتی ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ سوالات پوچھیں گے۔

خدیجے چنگیز نے کہا کہ امریکی مووی کمپنیز دی ڈیسیڈنٹ سے خوفزدہ ہوگئی ہیں یہ مایوس کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تصور نہیں کرسکتی تھی کہ کوئی اس فلم کو نہیں خریدے گا کیونکہ یہ تاریخ کے ایک بہت اہم قتل پر بات کررہی ہے۔

یاد رہے کہ 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے کا دورہ کرنے والے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی لاپتا ہو گئے تھے اور بعدازاں ترک حکام نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا

صحافی کی لاش نہیں مل سکی تھی اور رپورٹس کے مطابق ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے نالے میں بہا دیا گیا تھا۔ 59 سالہ واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار سعودی عرب کی پالیسیوں کے بڑے ناقد تھے اور ممکنہ طور پر اسی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا اور ان کے قتل کا الزام سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا تھا۔

صحافی کے قتل کا حکم دینے کے حوالے سے محمد بن سلمان کے کردار پر اب بھی سوالیہ نشان برقرار ہے کیونکہ سی آئی اے سمیت دنیا کی مختلف خفیہ ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق سعودی ولی عہد کو قتل کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔

سعودی حکومت نے ابتدائی طور پر اس معاملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا لیکن بعدازاں دباؤ پڑنے پر ذمے داری آپریشن کرنے والوں پر ڈال دی ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پانچ افراد کی سزائے موت کو تبدیل کرتے ہوئے مجموعی طور پر 8 افراد کو 7 سے 20 سال کے درمیان قید کی سزا سنا دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں