اسامہ ستی کا قتل: واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے پانچوں اہلکار برطرف

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2021
نوٹی فکیشن میں اہلکاروں کی غیر پیشہ ورانہ قابلیت کا تذکرہ کیا گیا—فائل فوٹو: شکیل قرار
نوٹی فکیشن میں اہلکاروں کی غیر پیشہ ورانہ قابلیت کا تذکرہ کیا گیا—فائل فوٹو: شکیل قرار

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نے 21 سالہ اسامہ ستی کے قتل کیس میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے پانچوں اہلکاروں کو برطرف کردیا۔

ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں مذکورہ پیش رفت کی تصدیق کی گئی۔

نوٹی فکیشن کے مطابق سی ٹی ڈی اہلکاروں کو قصوروار ثابت ہونے پر انہیں عہدے سے برطرف کیا گیا۔

برطرف ہونے والوں میں سب انسپکٹر افتخار، کانسٹبل مصطفی، شکیل، مدثر اور سعید شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں نوجوان کا قتل: پولیس ریکارڈ تضاد کے سامنے آنے پر سیل

جاری ہونے والے تمام پانچ نوٹی فکیشن میں اہلکاروں کی غیر پیشہ ورانہ قابلیت کا تذکرہ کیا گیا جس کے باعث اسامہ ستی کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ 'پولیس فورس کا حصہ ہونے کے ناطے مشتبہ کار کو روکنے کے لیے پیشہ وارانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تھی'۔

اس میں مزید کہا گیا کہ اہلکار صورتحال کو پیشہ ورانہ قابلیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے اور مذکورہ واقعہ پیش آیا۔

واضح رہے کہ 3 جنوری کو اسلام آباد پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 5 اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک نوجوان اسامہ ستی کو جاں بحق کردیا تھا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ شیخ رشید احمد کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔

علاوہ ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ نے قتل میں ملوث 5 اہلکاروں کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا، 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب

ایف آئی آر میں والد ندیم ستی نے مؤقف اپنایا تھا کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے بیٹے کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور پولیس اہلکاروں نے اسے مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 2 جنوری کی رات 2 بجے جب اسامہ سیکٹر ایچ-11 میں ایک دوست کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو پولیس حکام نے اس کی گاڑی کو روکا اور چاروں طرف سے فائر کیے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔

تاہم پولیس کے ترجمان کے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً ڈیڑھ بجے کال موصول ہوئی کہ سفید گاڑی میں موجود کچھ ڈکیت سیکٹر ایچ-13 تھانہ شمس کالونی کی حدود میں ڈکیتی کرکے آرہے ہیں، اطلاع موصول ہونے پر پیٹرول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ردعمل دیا اور سیاہ شیشوں والی سوزوکی کار کو روکنے کی کوشش کی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ تاہم پولیس حکام کی جانب سے متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی، جس پر پولیس اہلکاروں نے 5 کلومیٹر تک اس کا پیچھا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی ہلکی نہیں کی، بالآخر پولیس نے گاڑی پر فائر کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ڈرائیور کو لگے اور وہ زخمی ہوگیا۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد عامر ذوالفقار خان نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی وقار الدین سید کو سونپی گئی اور سب انسپکٹر افتخار احمد اور کانسٹیبلز مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد اور محمد مصطفیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا۔

بعدازاں اسامہ ستی کے قتل سے متعلق تمام ریکارڈ سینئر افسران کی ہدایت کے تحت اسلام آباد پولیس نے سیل کردیا گیا تھا۔

پولیس افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ریکارڈ سیل کردیے گئے ہیں کیونکہ اس میں تضاد ہے۔

دو ریکارڈ میں دیکھا گیا تھا کہ پولیس نوجوان کی گاڑی روکنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

علاوہ ازیں کمشنر کی ہدایت پر واقعے کی عدالتی انکوائری بھی شروع کردی گئی ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص انکوائری کر رہے ہیں جنہوں نے پولیس عہدیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے اور جائے وقوع کا معائنہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں