وزیراعظم نے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا، 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کی تھی—فائل فوٹو: شکیل قرار
پولیس اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کی تھی—فائل فوٹو: شکیل قرار

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ شیخ رشید احمد کو ہدایت کی ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔

واضح رہے کہ ہفتے کو اسلام آباد پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 5 اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک نوجوان اسامہ ستی کو جاں بحق کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سید ذوالفقار عباس بخاری اور وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے سیکٹر جی-13 میں متوفی کے گھر کا دورہ کیا۔

مزید پڑھیں: اسامہ قتل کیس: اے ٹی ایس کے 5 اہلکاروں کا 3 روزہ ریمانڈ منظور

وہیں اتوار کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے قتل میں ملوث 5 اہلکاروں کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

مذکورہ واقعے میں اسلام آباد چیف کمشنر عامر علی احمد کی جانب سے جوڈیشل انکوائری کا پہلے ہی حکم دیا جاچکا ہے جبکہ واقعہ کا مقدمہ بھی لڑکے کے والد کی مدعیت میں رمنا تھانے میں درج ہوا ہے، جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 148 اور 149 لگائی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں والد ندیم ستی نے مؤقف اپنایا ہے کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے بیٹے کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور پولیس اہلکاروں نے اسے مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 2 جنوری کی رات 2 بجے جب اسامہ سیکٹر ایچ-11 میں ایک دوست کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو پولیس حکام نے اس کی گاڑی کو روکا اور چاروں طرف سے فائر کیے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔

تاہم پولیس کے ترجمان کے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً ڈیڑھ بجے کال موصول ہوئی کہ سفید گاڑی میں موجود کچھ ڈکیت سیکٹر ایچ-13 تھانہ شمس کالونی کی حدود میں ڈکیتی کرکے آرہے ہیں، اطلاع موصول ہونے پر پیٹرول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ردعمل دیا اور سیاہ شیشوں والی سوزوکی کار کو روکنے کی کوشش کی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ تاہم پولیس حکام کی جانب سے متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی، جس پر پولیس اہلکاروں نے 5 کلومیٹر تک اس کا پیچھا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی ہلکی نہیں کی، بالآخر پولیس نے گاڑی پر فائر کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ڈرائیور کو لگے اور وہ زخمی ہوگیا۔

اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد عامر ذوالفقار خان نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی وقار الدین سید کو سونپی گئی اور سب انسپکٹر افتخار احمد اور کانسٹیبلز مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد اور محمد مصطفیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

ادھر اتوار کو زلفی بخاری اور شہریار آفریدی، اسامہ ستی مرحوم کے گھر پہنچے اور اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب پولیس عہدیدار کے مطابق متوفی کے خلاف تو مجرمانہ کیسز رجسٹرڈ تھے، جس میں سے ایک جولائی 2018 میں دھوکا دہی جبکہ دوسرا اکتوبر 2018 میں منشیات ایکٹ کے تحت تھا۔

تاہم ایک ریٹائرڈ سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ کچھ پولیس حکام کی جانب سے 2018 کی ایک کمپیوٹرائزڈ ایف آئی آر زیرگردش ہے، لہٰذا یہ ’جعلی‘ ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ اگر اعتراض کی خاطر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ ایف آئی آر اصلی ہے، تب بھی پولیس کو متوفی کو گولی مارنے کا کوئی حق نہیں تھا، مزید یہ کہ والد کا بیان اہم ہے کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے بیٹے کی ایک روز قبل پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور بیٹے نے انہیں اس سے متعلق بتایا تھا‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

honorable Jan 04, 2021 11:01am
notice after roar in press by pm. Murderer, and investigators belong to the same force. Is it not interesting?