ملک میں اداروں کی بالادستی تسلیم نہیں کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2021
مولانا فضل الرحمٰن نے لورالائی میں جلسے سے خطاب کیا—فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے لورالائی میں جلسے سے خطاب کیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ آج فیصلہ کن وقت آگیا ہے اور یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے مالک اس کے عوام ہیں یا کچھ طاقت ادارے ہیں۔

لورالائی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے صدر اور سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ لورالائی میں عظیم المثال اور تاریخی اجتماع میں عوام کی بے مثال شرکت اس بات کا اعلان ہے کہ بلوچستان کے عوام دھاندلی کی پیداوار حکومت کو مسترد کرتے ہیں اور ووٹ چوری کرکے آنے والے حکومت کو قوم پر مزید مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: موجودہ حکومت کو سہارا دینے والے بھی پاکستان کی تباہی میں شریک ہیں، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قصد کیا ہے کہ واپس لے کر رہیں گے اس ملک میں عوام کی مرضی کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ جنگ پاکستان میں جمہوری فضاؤں کی بحالی، آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خودمختاری اور قانون کی عمل داری کے لیے ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں آج قوم ایک پلیٹ فارم پر ہے، ہم نے پورے ملک میں جلسے کیے ہیں، کراچی، لاہور، بہاولپور، مالاکنڈ اور آج لورالائی دور دراز علاقوں میں عوام کا سمندر ہمارے جلسوں میں امنڈ آتا ہے، یہ موجیں مارتا ہوا سمندر کوئی مقاصد اور نظریہ رکھتا ہے اور اس ملک کے لیے کوئی مطالبہ رکھتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں عمران خان کو جانا ہی ہے، یہ ایک غیر متعلقہ شخص ہے۔

'فیصلہ کرنا ہے پاکستان کے مالک عوام ہیں یا کچھ طاقت ور ادارے ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فیصلہ یہ کرنا ہے کہ پاکستان کے مالک پاکستان کے عوام ہیں یا پاکستان کے مالک ہمارے کچھ طاقت ور ادارے ہیں، آج فیصلہ کن وقت آگیا ہے، آج ہم نے فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جعلی حکومت اور جعلی وزیراعظم کو عقل نہیں ہے، اس کا تو کوئی نظریہ ہی نہیں ہے، کبھی کہتا ہے میری حکومت آئے گی تو ریاست مدینہ بناؤں گا، چند گزرتے ہیں تو کہتا ہے کہ پاکستان میں چین جیسا نظام ہونا چاہیے، تھوڑا عرصہ گزرتا ہے تو کہتا ہے کہ ایران جیسا انقلاب آنا چاہیے، ابھی چند دن ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان کو ایک امریکی نظام کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نااہل حکمران نے اپنی نااہلی کا خود اعتراف کرلیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

عوام سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران نے کہا تھا کہ خدا کرے بھارت میں مودی کامیاب ہوجائے، مودی کامیاب ہوا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا، اب مودی کامیاب بھی ہوگیا اور مسئلہ حل ہوگیا کہ کشمیر پر اس نے قبضہ کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کو کشمیر پر بات کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے، کبھی ہم 85 ہزار مربع کلومیٹر کشمیر کی بات کرتے تھے اور آج ہم 5 ہزار کلومیٹر کشمیر کی بات کر رہے ہیں، ہم نے گلگت بلتستان کو بھی کشمیر سے الگ کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی آبادی 15 سے 20 لاکھ نفوذ پر مشتمل ہے اس سے تو صوبہ بنایا جارہا ہے لیکن ہمارے قبائلی علاقوں کے عوام جن کی تعداد ڈیڑھ کروڑ ہے اس سے صوبہ بنانے کا حق نہیں دیا جا رہا ہے تو اس قسم کے فلسفے کوئی احمق بتا سکتا جس طرح ہمارے حکمران بتا رہے ہیں۔

'حکمرانوں میں اعتماد نام کی کوئی چیز نہیں ہے'

انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے آزادی کی جنگ لڑی اور انگریز کو ہندوستان کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا لیکن پاکستان کی صورت میں ابھی بھی کالونی کی علامات موجود ہیں، ہم نے پاکستان کو امریکی کالونی نہیں بننے دینا اورپاکستان کو دنیا میں آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر متعارف کروانا ہے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ہمارا اپنا ملک ہے اور ہمیں اپنے ملک کے حوالے سے سوچنا ہے، ہمارے حکمرانوں میں خود اعتمادی نام کی کوئی چیز نہیں، اگر انہیں پاکستان کالونی نظر نہ آتا تو یہ اوٹ پٹانگ باتیں نہ کرتا، کبھی امریکا کے نظام کی بات کرے اور کبھی چین کے نظام کی بات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کی ریاست کے نام پر قوم کو بے وقوف بنایا ہے اور ملک میں طاقت وروں کا فلسفہ ہے، آج ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے، آج پڑوسی ملک ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: غدار وہ ہیں جنہوں نے دھاندلی کی، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ ہندوستان تو ہے ہی ہمارا دشمن لیکن آج افغانستان بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں ہے، ایران بھی بھارت کے کیمپ میں چلا گیا ہے، آج چین، پاکستان سے ناراض ہے، بھارت اور چین کی معیشت ترقی پر ہے، افغانستان کی معیشت ہم سے کئی گنا بہتر ہوئی ہے، ایران کی معیشت ہم سے زیادہ طاقت ور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا، انڈونیشیا ترقی کر رہے ہیں، نیپال اور سری لنکا جیسے چھوٹے ممالک ترقی کر رہے ہیں اور پورے خطے میں ایک پاکستان ہے جس کی معیشت ڈوب رہی ہے، کون سنبھال لے گا، آج اگر پی ڈی ایم پریشان ہے تو ایک بات کے لیے پریشان ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کا وہ کباڑا کر دیا ہے کہ خدا جانے اب اس کو دوبارہ ٹھیک کیسے کیا جائے۔

'پاکستان میں عوام کی بالادستی ہوگی'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج والدین اپنے بچوں کو ذبح کر کے نہر پر پھینک رہے ہیں کہ ہمارے پاس بچوں کو پالنے کے لیے کچھ نہیں اور ان کی بھوک ہم سے دیکھی نہیں جاتی، اس لیے ہم نے پاکستان بنایا تھا کہ اس قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہوں گے اور پاکستان کے ذمہ دار ادارے ان کی پشت پر ہوں گے، ذمہ دار ادارے ان کے لیے دھاندلی کریں گے اور دھاندلی کر کے ایسے لوگوں کو قوم پر مسلط کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان اور پوری قوم سے کہنا چاہتا ہوں اب ہم اس ملک میں اداروں کی بالادستی تسلیم نہیں کریں گے یہاں بالادستی ہوگی تو پاکستانی قوم کے پاکستان کے عوام کی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، ایک ہی سیاست ہے، یہ چور ہے وہ چور ہے کے الزامات لگا رہے ہیں، ایسی حکومت آئی کہ لوگ دوبارہ ان چوروں کو کہتے ہیں واپس لاؤ تاکہ ہمیں صبح شام کی روٹی تو ملے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ حکمران اپنی چوریاں فارن فنڈنگ کیس، جو باہر سے تمہارا لیے پیسہ آیا، تمہاری انتخابی مہم کے لیے بھارت، یورپ اور اسرائیل سے پیسہ آیا اور آج تمہاری ہی پارٹی کا بانی رکن الیکشن کمیشن میں جا کر تھک گیا ہے کہ یہ فنڈ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہوئے لیکن الیکشن کمیشن حساب کرنے کو تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج ہوگا، مسئلہ سنجیدہ ہے، یہ جنگ دو سیٹوں کی نہیں بلکہ نظریہ اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ہے اور قوم کو قید نہیں بلکہ آزاد ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو حقوق دیے گئے ہیں، صوبوں کے عوام کو ان کے تمام اثاثوں اور ان کے سرمایے کا مالک بنایا گیا ہے، ہم دوبارہ صوبوں کو حق مرکز کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں جو حصہ صوبوں کا ہے اس میں اضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں کی جاسکتی، پی ڈی ایم قوم کے حق میں دانش مندی سے فیصلے کرے گی تاکہ ہر فریق، صوبے اور ہر قوم کو حق دلائیں گے۔

انہوں نے عوام سے پوچھا کہ اگر ہم نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا تو پوری طاقت کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہیں تو پھر اسلام آباد کی گلی کوچے میں آپ کے علاوہ پھر کوئی اور نہیں ہونا چاہیے اور پھر ہم اپنا جائز مطالبہ منوا کر رہیں گے اور ناجائز حکمران کو چلتا کریں گے، ان کو ہمارے اوپر حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں