برطانوی رکن پارلیمنٹ کی کشمیر کے لیے متاثر کن فریاد

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2021
لیبر پارٹی کی ایم پی سارہ اوونس نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال کی مذمت کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ - فوٹو:ٹوئٹر
لیبر پارٹی کی ایم پی سارہ اوونس نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال کی مذمت کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔ - فوٹو:ٹوئٹر

لندن: برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے جہاں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث دیکھی گئی وہیں لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نے ویسٹ منسٹر ہال میں متاثر کن تقریر کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو براہ راست نشر ہونے والے اس مباحثے میں رکن پارلیمنٹ سارہ اوونس نے پارلیمنٹیرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ کسی مرحلے پر ہم نے لاک ڈاؤن کو برا بھلا کہا ہوگا تاہم کشمیری عوام کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور کشمیر میں لاک ڈاؤن حفاظت لیے نہیں بلکہ یہ کنٹرول کے لیے ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ '2019 کے لاک ڈاؤن نے پوری برادری کو اور بیرونی دنیا تک ان کے رابطوں کو بھی بند کردیا تھا، اہلخانہ اپنے پیاروں کے بارے میں پریشان تھے، لیوٹن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، (مقبوضہ) کشمیر سے اپنی فیس حاصل کرنے سے قاصر تھے کیوں کہ بینکنگ ختم کردی گئی تھی، کرفیو (نافذ کیا گیا) لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے، وائرس کے لیے نہیں، 5 لاکھ فوجیوں نے لاک ڈاؤن نافذ کیا'۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی

ایم پی سارہ اوونس کا تعلق انتخابی حلقہ لوٹن نارتھ سے ہے جہاں برطانوی پاکستانیوں کی ایک خاصی تعداد رہتی ہے۔

برطانیہ بھر میں پاکستانی تارکین وطن نے کشمیر میں بھارتی قبضے میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے خاص طور پر اگست 2019 کے بعد سے جب نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے وادی کو غیرقانونی طور پر اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا۔

برطانوی پاکستانیوں، جن میں سے بہت سارے افراد کے اہلخانہ آزاد جموں و کشمیر اور متنازع علاقوں سے ہیں، نے ممبران پارلیمنٹ کو خط لکھ کر، مظاہرے کرکے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

سارہ اوونس کشمیری عوام کی پکار کی حامی رہی ہیں اور ماضی میں بھارتی قبضے میں رہنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

رواں ہفتے انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح وبائی بیماری نے کشمیریوں کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'مسلمانوں کو ہسپتالوں سے واپس بھیجے جانے کی اطلاع ملی ہے، یہ وبا کے وقت میں چونکا دینے والا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیری خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی متعدد اطلاعات ہیں، بی جے پی کے اعلیٰ عہدیدار متعدد مرتبہ ریکارڈ پر کشمیری خواتین کو اس تنازع کا حصہ بنانے کے اپنے ارادوں کو ظاہر کرچکے ہیں اور میں نے سنا ہے کہ کشمیر میں ایسی خواتین ہیں جو اپنی دہلیز پر ہزاروں فوجیوں کے حملہ کرنے سے گھبراتی ہیں، خواتین اپنی زندگی سے خوف کھاتی ہیں اور خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں منظور

انہوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال کی مذمت کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اکثر وزیر سے یہ سنتے ہیں کہ برطانیہ خواتین کے حقوق کی پرواہ کرتا ہے تاہم کیا یہ عمل بیان بازی سے میل کھاتے ہیں؟ وہ کیا ضمانتیں دے سکتے ہیں کہ ہوم آفس میں ہمارے ساتھی ریپ کے واقعات اور سیاسی پناہ کے معاملات کو سنجیدگی سے لیں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں