کرک مندر واقعہ: غفلت برتنے والے 16 پولیس اہلکار نوکری سے فارغ

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2021
کامران بنگش نے کہا کہ جو بھی افراتفری اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گا اسے نہیں چھوڑا جائے گا — فائل فوٹو / اے پی
کامران بنگش نے کہا کہ جو بھی افراتفری اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گا اسے نہیں چھوڑا جائے گا — فائل فوٹو / اے پی

خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے تیری میں ایک ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ اور اسے مسمار کرنے کے واقعے میں غفلت برتنے والے 16 پولیس اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'خیبر پختونخوا، جسے سیکڑوں سالوں سے مذہبی اقلیتوں اور ہم آہنگی کا مسکن سمجھا جاتا ہے وہاں ایک افسوسناک واقعہ کرک میں پیش آیا جہاں تاریخی سمادھی کو مسمار کرانے کی کوشش کی گئی'۔

انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعے پر فوری ایکشن لیا، اس مندر کی دوبارہ تعمیر کا اعلان اور اعلان کیا کہ ہم ملزمان کو نہیں چھوڑیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسی سلسلے میں سیکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے جن میں سے 45 کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہوا'۔

مزید پڑھیں: سمادھی نذرآتش کیس: جن لوگوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں، چیف جسٹس

کامران بنگش نے کہا کہ 'یہ رپورٹس بھی آئیں کہ پولیس کی جانب سے بھی غفلت برتی گئی، آج وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر صوبے کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ثنااللہ عباسی نے تقریباً 16 پولیس اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کردیا ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'آئی جی نے 50 سے زائد اہلکاروں کی ایک سال کی پروموشن ضبط بھی کرلی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم مزید بھی ایکشن لیں گے اور یہ سب کے لیے واضح پیغام ہوگا کہ جو بھی افراتفری اور انتشار پھیلانے کی کوشش کرے گا اسے نہیں چھوڑا جائے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: کرک: ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، جے یو آئی (ف) رہنما سمیت 31 افراد گرفتار

کرک واقعے کا پس منظر

واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔

واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، وزیرمذہبی امور

عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔

مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔

بعدازاں مذکورہ واقعے کی سوشل میڈیا پر کافی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئی تھیں جبکہ حکام نے بھی نوٹس لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا اور 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی تھی۔

جس کے بعد 31 دسمبر کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی نذرآتش کرنے کا نوٹس لے لیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں