'برطانوی پارلیمنٹ میں بحث سے واضح ہوگیا کہ کشمیر، بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے'

اپ ڈیٹ 15 جنوری 2021
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ یقیناً ہمارے سفارتی نقطہ نظر کی کامیابی ہے — فائل فوٹو / پی آئی ڈی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ یقیناً ہمارے سفارتی نقطہ نظر کی کامیابی ہے — فائل فوٹو / پی آئی ڈی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے مقبوضہ جموں و کشمیر پر بحث سے واضح ہوگیا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ جموں و کشمیر، خطے میں امن و امان اور ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان بہت مطمئن ہے کہ جو باتیں ہم گزشتہ دو سال سے کہتے چلے آرہے تھے آج دنیا ان کی تائید کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عرصہ دراز سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کرتے چلے آرہے ہیں، آج وہی گونج برطانوی پارلیمنٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے، بھارت پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے، برطانوی پارلیمنٹیرینز نے واضح کر دیا ہے کہ یہ عالمی سطح پر متنازع مسئلہ ہے جس پر سلامتی کونسل کی بہت سی قراردادیں موجود ہیں اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہرگز نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت دنیا کو یہ تاثر دے رہا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں جبکہ برطانوی پارلیمنٹیرینز نے بھارت کے جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں حالات انتہائی تشویشناک ہیں، لاکھوں بھارتی فوجی کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوجوانوں کو بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے اور مواصلات کا بلیک آؤٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی رکن پارلیمنٹ کی کشمیر کے لیے متاثر کن فریاد

انہوں نے کہا کہ غیر جانبدار مبصرین کو مقبوضہ علاقوں تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے، بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی بھی اجازت نہیں، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری پابند سلاسل ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، آج یہ آوازیں برطانیہ کی پارلیمنٹ سے اُٹھ رہی ہیں، یہ یقیناً ہمارے سفارتی نقطہ نظر کی کامیابی ہے، یہ امر کشمیریوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے اور اس آواز سے بھارت کا چہرہ مزید بے نقاب ہو گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکا میں 20 جنوری سے امور حکومت سنبھالنے والی جو بائیڈن انتظامیہ میں بہت سے لوگ، جنہیں اہم ذمہ داریاں ملنے کی توقع ہے، اس خطے سے اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے واقف ہیں، ہمیں توقع ہے کہ وہ نہتے کشمیریوں کو بھارتی استبداد اور طویل فوجی محاصرے (ڈبل لاک ڈاؤن) سے نجات دلانے کے لیے امریکی کانگریس میں آواز اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دنیا ہمارے اور بھارت کے مؤقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے خود جا کر حقائق کا جائزہ لے، امریکی کانگریس، برطانوی پارلیمنٹ اور یورپی پارلیمنٹ کے وفود مقبوضہ کشمیر جائیں، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور امن و امان کی صورتحال کا خود جائزہ لیں اور رپورٹس اپنی اپنی پارلیمنٹ میں پیش کریں تاکہ اصل حقائق دنیا کے سامنے آسکیں۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی

برطانوی پارلیمنٹ میں متاثر کن تقریر

برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے جہاں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بحث دیکھی گئی وہیں لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ نے ویسٹ منسٹر ہال میں متاثر کن تقریر کی۔

بدھ کو براہ راست نشر ہونے والے اس مباحثے میں رکن پارلیمنٹ سارہ اوونس نے پارلیمنٹیرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ کسی مرحلے پر ہم نے لاک ڈاؤن کو برا بھلا کہا ہوگا تاہم کشمیری عوام کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور کشمیر میں لاک ڈاؤن حفاظت لیے نہیں بلکہ یہ کنٹرول کے لیے ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ '2019 کے لاک ڈاؤن نے پوری برادری کو اور بیرونی دنیا تک ان کے رابطوں کو بھی بند کردیا تھا، اہلخانہ اپنے پیاروں کے بارے میں پریشان تھے، لیوٹن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ، (مقبوضہ) کشمیر سے اپنی فیس حاصل کرنے سے قاصر تھے کیوں کہ بینکنگ ختم کردی گئی تھی، کرفیو (نافذ کیا گیا) لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے، وائرس کے لیے نہیں، 5 لاکھ فوجیوں نے لاک ڈاؤن نافذ کیا'۔

ایم پی سارہ اوونس کا تعلق انتخابی حلقہ لوٹن نارتھ سے ہے جہاں برطانوی پاکستانیوں کی ایک خاصی تعداد رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں منظور

برطانیہ بھر میں پاکستانی تارکین وطن نے کشمیر میں بھارتی قبضے میں رہنے والے لوگوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے خاص طور پر اگست 2019 کے بعد سے جب نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت نے وادی کو غیرقانونی طور پر اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا۔

برطانوی پاکستانیوں، جن میں سے بہت سارے افراد کے اہلخانہ آزاد جموں و کشمیر اور متنازع علاقوں سے ہیں، نے ممبران پارلیمنٹ کو خط لکھ کر، مظاہرے کرکے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

سارہ اوونس کشمیری عوام کی پکار کی حامی رہی ہیں اور ماضی میں بھارتی قبضے میں رہنے والوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں