سپریم کورٹ کا سرکاری اداروں، کے الیکٹرک کے درمیان معاملات میں شامل ہونے سے انکار

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2021
وزرا کو معاملات میرٹ پر طے کرنا چاہیے اور انہیں توقع نہیں کرنی چاہیے کہ عدالت ان کی طرف سے فیصلے کرے گی، چیف جسٹس - فائل فوٹو:
وزرا کو معاملات میرٹ پر طے کرنا چاہیے اور انہیں توقع نہیں کرنی چاہیے کہ عدالت ان کی طرف سے فیصلے کرے گی، چیف جسٹس - فائل فوٹو:

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے متعدد سرکاری اداروں اور کے الیکٹرک کے مابین تقریباً 3 کھرب روپے کے دعووں اور جوابی دعووں کے تصفیے میں سہولت کاری کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی دائر درخواست مسترد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے حال ہی میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ پرائیویٹائزڈ کے-الیکٹرک کو واجب الادا اور قابل وصول بھاری رقم کی ثالثی یا تصیفے کے لیے کچھ رہنما اصول وضع کیے جائیں۔

اس سلسلے میں وفاقی وزرا، متعلقہ سیکریٹریز اور قانونی ماہرین کے علاوہ سرکاری اور نجی اداروں کے سربراہان نے بھی کے الیکٹرک، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل)، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور وفاقی حکومت سے متعلق بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کی حساسیت پر بریفنگ کے لیے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سے ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کو اضافی بجلی، گیس کی فراہمی کے قانونی تقاضے تعطل کا شکار

ایک وفاقی وزیر نے عدالت کو بتایا کہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار قومی احتساب بیورو (نیب) کے خوف کی وجہ سے متنازع رقم کے تصفیے کے لیے پہل کرنے سے گریزاں ہیں۔

گزشتہ 5-6 سالوں کے دوران متعدد وفاقی سیکریٹریز اور کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز نے بڑی مالی ایڈجسٹمنٹ کے لیے تصفیے سے متعلق تنازع میں مبتلا ہونے سے انکار کردیا ہے۔

اس کے نتیجے میں نہ صرف کے ای کے اکثریتی حصص کی شنگھائی الیکٹرک کو منتقلی تعطل کا شکار ہے بلکہ عوامی یوٹیلیٹی کمپنی ملک کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر میں اپنے نظام کی بہتری کے لیے خاطر خواہ کام بھی نہیں کررہی ہے جس سے صارفین گرم موسم میں متاثر ہوتے ہیں۔

یہ معاملہ کے الیکٹرک کے بجلی اور گیس کی فراہمی کے لیے تازہ معاہدوں پر دستخط کرنے میں بھی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے آنے والے موسم گرما میں کراچی میں 800-900 میگاواٹ کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔

ملاقات کے دوران موجود کم از کم دو سرکاری ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر تصدیق کی چیف جسٹس خالصتاً ایگزیکٹو نوعیت کے تجارتی معاملات میں شامل نہیں ہوئے۔

وفد کو بتایا گیا کہ وفاقی وزارتوں کے اعلیٰ عہدیدار اور متعلقہ کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کئی دہائیوں سے پاکستان کی خدمت میں ہیں اور عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے وزرا کو اپنی ذمہ داری سے ہٹنے کے بجائے معاملات کو میرٹ پر طے کرنا چاہیے اور انہیں توقع نہیں کرنی چاہیے کہ عدالت ان کی طرف سے فیصلے کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: گیس پریشر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو گرمیوں میں بجلی کی بندش کا سامنا رہے گا، کے الیکٹرک

ان ذرائع نے بتایا کہ وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر جو کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کے سربراہ بھی ہیں، سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ کراچی کے لیے جاری منصوبوں کو بروقت عمل میں لائیں گے اور مالی امور کے دوطرفہ تصفیے اور اس کا راستہ تلاش کرنے کے لیے متعلقہ ایجنسیز اور کمپنیوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کریں۔

سب سے بڑا مسئلہ ماضی کے بجلی اور گیس کی سپلائی پر این ٹی ڈی سی اور ایس ایس جی سی ایل پر 272 ارب روپے کے واجبات بھی ہیں۔

دونوں کمپنیاں جب تک اپنے واجبات کو ختم نہیں کرتی ہیں کے ای فراہمی کے تازہ معاہدوں پر دستخط کرنے سے گریزاں ہے۔

اس میں سے ایس ایس جی سی ایل نے کے ای کے خلاف 122 ارب روپے کا دعوی کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ گیس کی فراہمی کے باضابطہ معاہدے کے باوجود کئی سالوں میں ترقی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ این ٹی ڈی سی انتظامیہ اضافی بجلی کی فراہمی کے لیے پی پی اے پر دستخط کرنے سے پہلے اپنے 150 ارب روپے کی کلیئرنس چاہتا ہے۔

دوسری جانب کے ای حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے خلاف مجموعی قابل ادائیگی کی بنیاد پر 234 ارب روپے کے دعوے کرتی ہے اور عوامی شعبے سے تقریبا 80 ارب روپے کی ادائیگی کی توقع کرتی ہے بشرطیکہ تمام ادائیگی اور وصول کنندگان اصولی ادائیگی کی بنیاد پر طے کرلیں جس میں دونوں فریقین کی جانب مارک اپ ترک کرنا اور پرنسپل واجبات کو حل کرنا شامل ہے۔

ان میں سے چند اس وقت صرف دعوے ہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں