پاکستان کو زیر زمین پانی کے بہتر انتظام کی ضرورت ہے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2021
سندھ طاس کے زیرزمین پانی میں میٹھے پانی کا حجم ملک کے تین سب سے بڑے ڈیمز کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ ہے، ورلڈ بینک رپورٹ - فائل فوٹو:ثمن غنی خان
سندھ طاس کے زیرزمین پانی میں میٹھے پانی کا حجم ملک کے تین سب سے بڑے ڈیمز کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ ہے، ورلڈ بینک رپورٹ - فائل فوٹو:ثمن غنی خان

اسلام آباد: ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کے حصول میں موجود سندھ طاس کے زیر زمین پانی میں میٹھے پانی کا حجم ملک کے تین سب سے بڑے ڈیمز کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود 2020 میں پاکستان کو زیر زمین پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'پاکستان کے سندھ طاس میں زیر زمین پانی: موجودہ اور مستقبل کے امکانات' کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس زیر زمین پانی کے نکلنے کی پیمائش اور اس کے وسائل کی بنیاد پر پڑنے والے اثرات کے جامع، قابل اعتماد نظام کا فقدان ہے۔

مزید پڑھیں: زیر زمین پانی کے استعمال پر فی لیٹر ایک روپے قیمت عائد کی جائے، سپریم کورٹ

پیمائش میں محدود سرمایہ کاری جو اب تک کی گئی ہے، ان میں ہم آہنگی کا فقدان ہے اور یہ بہت بے ترتیب ہے جس سے جامع نقشہ سازی اور نگرانی کی جاسکے۔

اس طرح زیر زمین پانی کے استعمال کو استحکام اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کے قابل بنانے پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔

ہفتے کے روز جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور انتظامی مداخلتوں سے متعلق زیر زمین پانی کے رد عمل میں قدرتی وقفے کے باوجود، ان چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی پہلے ہی قومی آبی تحفظ اور پینے کے پانی کے معیار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زیر زمین پانی پر آخر کس کا حق ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو پانی کے تحفظ میں تیزی سے کمی، پینے کے پانی کے انتظامات کے اخراجات اور دیہی آبادی کی ایک قابل ذکر تعداد غربت کا شکار ہوجائے گی۔

پاکستان میں زیر زمین پانی میں اتار چڑھاؤ، جس نے زمینی پانی کی موجودہ اہمیت کو بڑھا دیا ہے، سے وسائل کے کم سے کم انتظام یا ریگولیشن کے معاملات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔

آلودگی، حد سے زیادہ نکالے جانے، نہر کے پانی کا ناقص انتظام اور آبپاشی کے نامناسب طریقوں کے نتیجے میں قابل استعمال زیر زمین پانی کی فراہمی کم ہورہی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سے قومی اور بین الاقوامی ماہرین کے بڑھتے ہوئے بحران کی پیش گوئی کرنے اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کلیدی ضروریات کی نشاندہی کرنے کے باوجود ان پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: زیر زمین بارشی پانی محفوظ کرنے کے لیے واسا کا ایک اور قدم

اس کے نتیجے میں کمی سے پنجاب میں زیر زمین پانی تک ممکنہ رسائی ختم ہورہی ہے اور پانی کے کھڑے ہونے اور نمکیات کی وجہ سے سندھ میں پانی اور مٹی کے معیار کو خطرہ ہے۔

پانی کھڑا ہونا، اس کی کمی اور نمکیات ایسے مسائل ہیں، جسے انتظامیہ کی توجہ کی ضرورت ہے، یہ نہ صرف پانی کی مقدار بلکہ پانی کے معیار کے انتظام کے لیے بھی ہے۔

پاکستان میں پورے سندھ طاس پر ماحولیاتی ضوابط کی ناقص نفاذ، گندے پانی کی صفائی میں کم سرمایہ کاری اور پمپنگ انفرااسٹرکچر کی غیر منظم اور بغیر لائسنس کے توسیع نے صنعتی، گھریلو اور قدرتی ذرائع سے زمینی پانی کی آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں