محمد جاوید کے پاس ڈیڑھ کروڑ روپے سرمایہ تھا۔ اس نے سوچا کہ ایک گاڑی خرید لی جائے اور باقی رقم کسی کاروبار میں لگا دی جائے۔

اس سلسلے میں وہ گاڑی بُک کروانے کمپنی کی رجسٹرڈ ڈیلر شپ پر گیا۔ ابتدائی رقم کا پے آرڈر جمع کروایا اور گاڑی کی ڈیلیوری سے ایک ماہ قبل پوری رقم کا پے آرڈر جمع کروایا۔ جب گاڑی ڈیلر شپ پر گئی تو سیلز مین کا فون آیا کہ آپ کی گاڑی پہنچ چکی ہے۔ ایک کسٹمر 3 لاکھ روپے اون یا پریمیم دے رہا ہے۔ اگر کہیں تو گاڑی بیچ دوں۔

جاوید حیران ہوا اور اسی کشمکش میں ڈیلر شپ پر پہنچا۔ سیلز مین سے بات کی اور گاڑی 3 لاکھ پریمیم پر بیچ دی۔ 40 فیصد ڈیلر شپ کو کمیشن دیا اور ایک لاکھ 80 ہزار روپے منافع لے کر گھر چلا گیا۔ گھر پہنچنے سے پہلے وہ یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ اب اون پر گاڑیاں بیچنے کا کاروبار کرے گا۔

بس پھر وہ وہ اگلے ہی دن گاڑی بنانے والی مختلف کمپنیوں کی رجسٹرڈ ڈیلر شپس پر گیا اور معلومات حاصل کیں کہ یہ کاروبار کس طرح کیا جانا چاہیے۔

اسے بتایا گیا کہ اون منی کا کاروبار صرف اسی صورت میں محفوظ ہے اگر آپ اسے مکمل توجہ سے کریں اور تکنیکی پہلوؤں کو مدِنظر رکھیں۔ عام طور پر اس کاروبار میں آپ کا سرمایہ نہیں ڈوبتا، ہاں لیکن اگر حالات خراب ہوجائیں تو پریمیم کا نقصان ہوسکتا ہے۔

ایک بڑی کمپنی کی رجسٹرڈ ڈیلر شپ پر سیلز مین نے اسے اپنا پکا کسٹمر بنانے کے لیے کچھ اندر کی باتیں بھی بتائیں۔ اسے بتایا گیا کہ گاڑی بنانے والی ہر برینڈ کی کمپنیوں کے ڈیلرز کی اون منی کے حوالے سے پالیسی مختلف ہے۔ بلکہ ایک ہی کمپنی کے مختلف رجسٹرڈ ڈیلرز کی پالیسی مختلف ہوسکتی ہے۔

کچھ ڈیلر شپ مالکان انویسٹرز کو گاڑیاں اون پر بیچنے کی اجازت نہیں دیتے اس لیے کمیشن بھی نہیں لیتے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اون پر گاڑیاں بیچنے کےخلاف ہوتے ہیں، بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ڈیلر شپ چاہتی ہے کہ صرف ان کی اپنی گاڑیاں اون پر فروخت ہوں۔

بڑے ڈیلرز نے اربوں روپوں کی گاڑیاں خود ہی بُک کروائی ہوتی ہیں۔ اگر انویسٹرز کو اون پر گاڑیاں بیچنے کی اجازت دیں گے تو ڈیلر شپ کی اپنی گاڑیاں نہیں بکیں گی اور سرمائے سے مطلوبہ فائدہ بھی نہیں اٹھایا جاسکے گا۔ ان حالات میں سیلز مین جادو کی چھڑی گھماتا ہے۔ وہ انویسٹرز کی گاڑیاں بُک کر لیتا ہے اور گاڑی آنے کے 4 سے 5 دن میں بیچ دیتا ہے۔ اگر زیادہ دنوں تک گاڑی شو روم پر کھڑی رہے تو ڈیلر شپ کو شک ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ تیز رفتاری سے گاڑی بیچتا ہے اور اپنا کمیشن وصول کرلیتا ہے۔ اس صورتحال میں کمیشن سیلز مین کماتا ہے ڈیلر شپ نہیں۔

کچھ ڈیلر شپ انویسٹر کو گاڑی اون پر بیچنے نہیں دیتے
کچھ ڈیلر شپ انویسٹر کو گاڑی اون پر بیچنے نہیں دیتے

سیلز مین نے جاوید کو بتایا کہ ’حکومت نے اون منی کا کاروبار روکنے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ ایک فرد ایک سال میں اپنے شناختی کارڈ پر صرف ایک گاڑی بُک کروا سکتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا اور ایک شخص کے شناختی کارڈ پر سیکڑوں گاڑیاں بُک ہوجاتی تھیں۔ لیکن ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے اب سختی ہوگئی ہے‘۔

لیکن اس مسئلے کا حل بھی خود اس سیلز مین نے بتادیا اور کہا کہ ’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ چھوٹے سرمایہ کار ہیں تو اپنی بیوی، بیٹی، بیٹے، بھائی، ماں، باپ، کزنز یا دوستوں میں سے 12 کے شناختی کارڈ اپنے پاس رکھ لیں۔ یعنی ہر ماہ ایک گاڑی بک کروائیں اور اسے بیچ دیں اور ایک سال بعد پھر انہی شناختی کارڈز پر نئی گاڑیاں بُک کروا لیں۔ یوں کمپنی بھی خوش اور انویسٹرز بھی‘۔

قانون کے مطابق ایک شخص سال میں ایک ہی گاڑی بُک کرواسکتا ہے
قانون کے مطابق ایک شخص سال میں ایک ہی گاڑی بُک کرواسکتا ہے

اس سیلز مین کے پاس صرف چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے حل موجود نہیں تھا، بلکہ بڑے انویسٹرز کے لیے بھی حل موجود تھا۔

اس نے ہمارے دوست کو مزید بتایا کہ ’اگر آپ بڑے انویسٹر ہیں اور ایک سال میں 100، 200 گاڑیاں بُک کروانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ ایک پارٹنر شپ یا پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا لیں۔ اس کا نیشنل ٹیکس نمبر بنوائیں اور پھر جتنی چاہے گاڑیاں بُک کروائیں۔ آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ نے اپنی کمپنی کے لیٹر ہیڈ پر درخواست دینی ہے کہ میری کمپنی کو استعمال کے لیے گاڑیاں درکار ہیں، نیچے کسی بھی شخص کا نام لکھ کر اسے کمپنی کا اعلیٰ عہدیدار ظاہر کریں، دستخط کریں، کمپنی کی مہر لگا کر درخواست جمع کروا دیں اور جب گاڑیاں آجائیں تو استعمال کیے بغیر شو روم سے ہی گاڑیاں بیچ دیں۔

’بیچنے کے لیے بھی صرف کمپنی کا لیٹر ہیڈ اور ایک مہر کی ضرورت ہوگی۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ نے استعمال کیے بغیر گاڑی کیوں بیچ دیں۔ کوئی آپ سے یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ آپ کمپنی کے استعمال کے لیے اتنی گاڑیاں بُک کروا رہے ہیں تو ذرا یہ بھی بتا دیں کہ آپ کے کاروبار کی نوعیت کیا ہے، آپ کی کمپنی میں کتنے ملازم ہیں، کمپنی کی مالی حیثیت کیا ہے، آپ کی بینک اسٹیٹمنٹ کتنی ہے، آپ کتنا ٹیکس دیتے ہیں؟ ایسا کچھ بھی چیک نہیں کیا جاتا اور ایک کمپنی کے نام پر سیکڑوں گاڑیاں بُک کروا کر اون پر بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے‘۔

اسے یہ بھی بتایا گیا کہ ’کچھ رجسٹرڈ ڈیلرز 40 اور 60 فیصد کے تناسب سے گاڑیاں اون پر بیچنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یعنی کہ اون منی کا 40 فیصد ڈیلر شپ کو وصول ہوتا ہے اور 60 فیصد انویسٹر کو ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص گاڑی استعمال کا کہہ کر بُک کروائے اور گاڑی ڈیلیور ہونے پر اسے شو روم سے ہی اون پر بیچنے کی کوشش کرے تو اسے اجازت نہیں دی جاتی‘۔

کہا جاتا ہے کہ شو روم کو 40 فیصد حصہ دیں تب ہی گاڑی اون پر بیچنے دیں گے۔ دوسری صورت میں آپ کی گاڑی کو نمبر لگوا کر شو روم سے نکالیں گے۔ یاد رہے کہ جیسے ہی گاڑی پر نمبر لگتا ہے وہ استعمال شدہ کے زمرے میں آجاتی ہے اور اس پر اون بہت کم ملتا ہے۔ ڈیلر شپ کی بلیک میلنگ اس کے کام آجاتی ہے اور انویسٹرز رجسٹرڈ شو روم پر ہی گاڑی بیچ دیتے ہیں۔ بلکہ بعض مواقع پر ڈیلر شپ ہی مالک سے اون پر گاڑی لے لیتی ہے اور آگے مہنگے داموں بیچتی ہے۔

اس کاروبار میں کئی طرح کے دھوکے کیے جاتے ہیں۔ غیر رجسٹرد شو روم مالکان رجسٹرڈ ڈیلر شپس سے نمبر لگوا کر گاڑیاں خریدتے ہیں اور انہیں چلا کر اپنے نجی شو روم میں لے جاتے ہیں۔ وہاں جاکر گاڑی کا نمبر اتار کر اور میٹر زیرو کروا کر اسے بیچ دیتے ہیں۔ یہ ڈیل نمبر لگوانے کی رقم شامل کرکے کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گاڑی کو نمبر لگا کر دیں گے جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ گاڑی کو پہلے ہی نمبر لگ چکا ہوتا ہے۔

اکثر لوگ رجسٹرد شو رومز میں آکر گلہ کرتے ہیں کہ ڈیلر شپ کے علاوہ جو گاڑیاں مل رہی ہیں ان کا اون کم ہے اور رجسٹرڈ ڈیلر شپ کا اون زیادہ ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ کار کمپنی سے گاڑی براہِ راست رجسٹرڈ ڈیلر شپ پر اتاری جاتی ہے۔ نجی شو رومز والے نئی گاڑیاں کمپنی سے براہِ راست نہیں خرید سکتے بلکہ وہ رجسٹرڈ شو رومز سے گاڑیاں خریدتے ہیں۔ وہاں سے خریدنے کے بعد یہ گاڑیاں اپنے شو روم لے جائی جاتی ہیں اور پھر میٹر پیچھے کرکے زیرو میٹر کہہ کر گاڑیاں معصوم لوگوں کو بیچ دی جاتی ہیں۔ کم اون کا لالچ انہیں دھوکا دینے کا باعث بنتا ہے اور چونکہ عام آدمی کو ان تمام باریکیوں کا علم نہیں ہوتا اس لیے وہ دھوکا کھا جاتا ہے۔

غیر رجسٹرڈ شوروم مالکان نمبر لگی ہوئی نئی گاڑی خریدتے ہیں اور میٹر پیچھے کرکے کم اون پر بیچ دیتے ہیں
غیر رجسٹرڈ شوروم مالکان نمبر لگی ہوئی نئی گاڑی خریدتے ہیں اور میٹر پیچھے کرکے کم اون پر بیچ دیتے ہیں

جاوید جب ان تمام معاملات سے پریشان ہوا تو اس نے پوچھ لیا کہ ’اگر حکومت نے اس کاروبار پر پابندی لگا دی تو پھر کیا ہوگا؟‘ سیلز مین نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’20 سال سے تو میں سن رہا ہوں کہ حکومت اون منی پر پابندی لگانے والی ہے لیکن آج تک لگ نہیں سکی‘۔

اس نے مزید کہا کہ ’جنہوں نے پابندی لگانی ہے وہ بھی اس کاروبار میں شامل ہیں۔ وائٹ کالر لوگ اپنے دفتروں میں بیٹھ کر نوکریاں کرتے ہیں اور فون پر یہ کاروبار چلاتے ہیں۔ اس سیکٹر میں ملک کی اشرافیہ کا کھربوں روپے کا سرمایہ لگا ہوا ہے اور وہ اپنے پیسے کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا جائیں گے۔ جب ان کا پیسہ محفوظ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا بھی محفوظ ہے، فکر نہ کریں‘۔

جاوید کو اب اندازہ ہوا کہ اس کاروبار میں سب سے زیادہ فائدہ سیلز مین کا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے وہ گاڑی بک ہونے پر کمپنی سے اپنا کمیشن وصول کرتا ہے۔ اس کے بعد اون پر گاڑی خریدنے والے کو کم اون پر گاڑی دلوانے کی کہانی سنا کر اپنا حصہ لیتا ہے۔ اس کے بعد گاڑی کے مالک سے بیچنے کا کمیشن وصول کرتا ہے۔ چوتھا حصہ وہ اصل مالک اور خریدار کے درمیان ملاقات نہ کروا کر وصول کرتا ہے۔ اس صورتحال میں مالک کو کم رقم بتائی جاتی ہے اور کسٹمر سے زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے۔ اضافی رقم سیلز مین جیب میں ڈال لیتا ہے۔ یعنی کہ جس شخص کا ایک بھی روپیہ نہیں لگا ہوتا وہ سب سے زیادہ منافع میں رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیلز مین آپ کو اس کاروبار سے نکلنے نہیں دیتا۔ ایک مرتبہ آپ کو اس کی لت لگ جائے تو اسے چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مشکل کیوں نہ ہو؟ اس کاروبار میں نہ تو دفتر کی ضرورت ہے، نہ ذاتی یا کرائے کے شو روم کی ضرورت ہے، نہ سیلز مین کی تنخواہوں کا جھنجھٹ ہے، نہ بجلی کا بل اور نہ ٹیکس کے مسائل ہیں۔ صرف پے آرڈر بنوائیں، سیلز مین کو حصہ دیں اور گھر بیٹھے پیسے کمائیں۔

لیکن اس صورتحال نے عام آدمی کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ وہ مجبور ہوکر اضافی رقم دیتا ہے جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گاڑی کی انوائس پر اصل قیمت لکھی ہوتی ہے اور آپ نے کتنا اون دے کر گاڑی خریدی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ جب آپ گاڑی بیچنے جاتے ہیں تو انوائس پر لکھی ہوئی قیمت کے مطابق رقم طے ہوتی ہے نہ کہ اون منی کے مطابق۔

اس کے علاوہ گاڑی کی خریداری پر جو ٹیکس کی رقم حکومت کو ادا کی جاتی ہے، اون پر گاڑی خریدنے والے کو اس کا فائدہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ گاڑی پہلے خریدار یعنی کہ انویسٹر کے نام ہوتی ہے اس لیے ٹیکس سرٹیفیکیٹ بھی اسی کے نام کا ہوتا ہے جو ٹرانسفر نہیں ہوسکتا۔ یعنی کہ اون پر گاڑی خریدنے والے کو تینوں اطراف فائدہ ہوتا ہے۔ ایک تو گاڑی کی فروخت پر اضافی رقم ملتی ہے، دوسرا ٹیکس کی رقم وصول کرنے کے بعد بھی ٹیکس سرٹیفیکٹ اسی کا رہتا ہے اور تیسرا یہ کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کے راستے کھل جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلیک منی کا ایک بڑا حصہ گاڑیوں میں انویسٹ ہوتا ہے۔ یہ سراسر حکومتی ناکامی ہے جس کا فائدہ مافیاز اٹھا رہے ہیں اور عام آدمی کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں یہاں کہنا چاہتا ہو کہ مسائل پر تنقید کرنا اس وقت تک بے سود رہتا ہے جب تک ان کا حل پیش نہ کیا جائے۔ اون منی سے پاکستانی معاشرے کو آزاد کرنے کے لیے کچھ تجاویز پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔

یہ سمجھ لیجیے کہ اون منی کا کاروبار طلب اور رسد کے فرق کی وجہ سے چلتا ہے۔ اگر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں زیادہ گاڑیاں بنائیں گی تو یہ فرق پیدا نہیں ہوگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً پچھلے 30 سال سے اون منی کا کاروبار چل رہا ہے۔ 3 یا 4 کمپنیاں ان 30 سالوں میں اپنی پیداواری صلاحیت اتنی نہیں بڑھا سکیں کہ پاکستانی عوام کی ڈیمانڈ کو پورا کرسکیں۔

بظاہر یہ معاملہ شک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا گاڑی بنانے والی کمپنیاں جان بوجھ کر پروڈکشن کم رکھتی ہیں تاکہ اون منی سے فائدہ اٹھایا جاسکے یا مارکیٹ میں ایک ماحول بنایا جاسکے کہ فلاں برینڈ کی گاڑیاں تو اتنی بکتی ہیں کہ ان کے پاس 6 ماہ تک کی بکنگ ہی خالی نہیں ہے۔

پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں 30 سال میں اپنی صلاحیت میں اضافہ ہی نہیں کرسکیں
پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں 30 سال میں اپنی صلاحیت میں اضافہ ہی نہیں کرسکیں

اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ سب سے پہلے ان کمپنیوں کی بکنگ اور تیاری کے مراحل کا آڈٹ کروائے۔ اگر یہ قصوروار ہیں تو سخت سزا دی جائے، ان کے لائسنس معطل کیے جائیں اور نئی کمپنیوں کو مارکیٹ میں آنے کی اجازت دی جائے۔

اگر واقعی آرڈرز کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ ہوتے ہیں تو پچھلے 30 سالوں سے ان کمپنیوں نے اپنی صلاحیت میں اضافہ کیوں نہیں کیا۔ انہیں ابتدائی طور پر مہلت دی جائے اور ایک ٹائم فریم طے کردیا جائے کہ اگر فلاں تاریخ تک صلاحیت نہ بڑھائی گئی تو بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ یہ عجیب مذاق ہے کہ دنیا میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ڈسکاونٹ آفر کر رہی ہیں اور پاکستان میں پریمیم منی وصول کی جارہی ہے۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے رجسٹرڈ ڈیلرز پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔ صرف لیٹر ہیڈ پر گاڑیاں بک کرلینا جرم قرار دیا جائے۔ ایک سے زیادہ گاڑی بُک کروانے کے لیے کمپنی کی تمام تفصیلات پیش کرنا لازمی قرار دیا جائے جن میں بینک اسٹیٹمنٹ اور فنانشل اسٹیٹمنٹس شامل ہوں۔ کوئی بھی گاڑی استعمال کرنے سے پہلے بیچنا جرم قرار دیا جائے۔

ٹیکس لگا کر بھی اس معاملے پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن فی الحال حکومتی حلقوں میں پہلے خریدار کو ڈیلیوری کی تاریخ سے 3 ماہ تک گاڑی بیچنے پر 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے تک ٹیکس لگانے کی تجویز زیرِ غور ہے لیکن یہ جرمانہ کم ہے۔ ابھی چند دن پہلے 56 لاکھ کی گاڑی پر 10 لاکھ روپے اون منی لیا جا رہا تھا۔ اس لیے ٹیکس کی رقم 50 ہزار روپے سے 10 لاکھ روپے تک رکھی جائے۔ اس تجویز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دوسرے خریدار سے تیسرے خریدار کو گاڑی بیچنے پر بھی یہ ٹیکس لاگو ہوگا یا نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Munir Ahmad Jan 31, 2021 12:34pm
Very nice and informative.