'پی ڈی ایم کا موقف تضادات سے بھرا ہوا ہے، ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں'

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2021
وزیر خارجہ نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات ہمارے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات ہمارے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس کا موقف تضادات سے بھرا ہوا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں تحریک عدم اعتماد لانے پر واضح اختلاف ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پی ڈی ایم کے اندر خاصی بے چینی ہے، پی ڈی ایم میں یکسوئی نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی کسی صورت استعفیٰ دینے اور سندھ کی حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے وہاں بے پناہ فوائد مل رہے ہیں، عمر کوٹ میں ضمنی انتخاب کے دوران حکومت سندھ نے انتظامیہ کا بے دریغ استعمال کیا، استعفوں کے بعد ایسا کہاں ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پیپلز پارٹی پہلے خود استعفوں سے پیچھے ہٹی اور پھر باقیوں کو ہٹوایا، اب وہ مناسب وقت کا بہانہ بنا رہے ہیں، لانگ مارچ کے معاملے میں بھی پی ڈی ایم کا کوئی واضح موقف نہیں ہے'۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں تحریک عدم اعتماد لانے پر واضح اختلاف ہے، پیپلز پارٹی کہہ رہی ہے کہ قانون کے مطابق پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لائیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم پارلیمانی روایات کے مطابق اس کا مقابلہ کریں گے اور انہیں شکست دیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، اپوزیشن کے دوست قبل ازیں میز پر بیٹھ کر گفتگو کرنے کی بات کر رہے تھے اور آج اپنے ہی مطالبے کی نفی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں حکومت ان سے منتیں کر رہی ہے، جبکہ نیب کے قانون میں ترمیم کے لیے جو انہوں نے 34 نکاتی تجاویز دیں وہ قابل عمل نہیں تھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی ڈی ایم کا موقف تضادات سے بھرا ہوا ہے اور اس میں وضاحت نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ’پی ڈی ایم کے احتجاج سے کوئی ٹینشن نہیں، جو خود محتاج ہو وہ کیا احتجاج کرے گا‘

'نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات ہمارے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں'

امریکا کی نئی حکومت کے افغانستان سے متعلق بیان کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ہر نئی انتظامیہ کو حق ہے کہ وہ چیزوں کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے، ہمارا موقف یہ ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور اس کا واحد راستہ جامع مذاکرات ہیں، میرے نزدیک موجودہ امریکی قیادت کو بھی اس بات کا ادراک ہے جبکہ زلمے خلیل زاد کی خدمات جاری رکھنے کا فیصلہ اس طرف اشارہ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'نئی امریکی انتظامیہ افغانستان میں تشدد میں کمی چاہتی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں، نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات ہمارے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں اور امریکی وزیر خارجہ کو میں نے خط لکھ کر اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ چار سال میں پاکستان اور خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں، میری رائے میں 40 سالوں کے بعد امید کی کرن پھوٹی ہے، میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ امن کی کاوشوں میں شریک رہیں گے، افغانستان میں قیام امن ایک مشترکہ ذمہ داری ہے اور سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنا مناسب نہیں ہوگا، اس مسئلے کا اصل حل افغان قیادت کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یہ ملک ان کا ہے'۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کے سعودی عرب میں سفیر تعینات کیے جانے سے متعلق وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ہمارے سفارت خانوں میں 80 فیصد افسران وزارت خارجہ سے لیے جاتے ہیں جبکہ باقی 20 فیصد بمطابق ضرورت مختلف شعبوں سے لیے جا سکتے ہیں، لہٰذا سوشل میڈیا پر اس حوالے سے قیاس آرائیاں بلا وجہ ہیں'۔

'توقع ہے نئی امریکی انتظامیہ کشمیر کے حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرے گی'

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر ہم نے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے، مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے اور وہاں بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال کیے جارہے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ سترہ ماہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو جیل میں بدل دیا گیا ہے، ہمیں توقع ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرے گی'۔

مزید پڑھیں: بھارت، پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر خارجہ

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'سفارتی سطح پر پچھلے ڈھائی سالوں میں ہمیں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں، ان ڈھائی سالوں میں جس طرح مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا وہ مثالی ہے، میری رائے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی پابندیوں کے باوجود دنیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے واقف ہے، لیکن اگر کہیں پر خاموشی نظر آتی ہے تو وہ مصلحتاً ہو سکتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'بین الاقوامی میڈیا جس قدر مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے آج متحرک ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جس طرح بھارت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کا سودا کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا، میری اپوزیشن سے ہمیشہ گزارش رہی ہے کہ اس حوالے سے سیاست نہ کریں، اگر اپوزیشن کے پاس اس حوالے سے کوئی اچھی تجویز ہے تو ہم ماننے کے لیے تیار ہیں'۔

'بھارت کے ساتھ کوئی بیک چینل رابطہ نہیں ہے'

براڈشیٹ معاملے سے متعلق وزیر خارجہ نے کہا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ اس کی شفاف تحقیقات ہوں، یہ معاہدہ کب ہوا کس نے کیا؟ پی ٹی آئی اس کی ذمہ دار نہیں، ہم حقائق کی چھان بین چاہتے ہیں اور جب انکوائری کمیشن بیٹھے گا تو سب کچھ بے نقاب ہو جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے کوئی امکانات نہیں ہیں، بھارت کے ساتھ کوئی بیک چینل رابطہ نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کا ہاتھ تھاما، سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تاریخی و برادرانہ تعلقات ہیں، سعودی عرب نے ہمیں ادائیگیوں کے توازن میں اور تیل کی فراہمی میں معاونت کی'۔

تبصرے (0) بند ہیں