رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

20 جنوری 2021ء کو ایک معمر شخص نے وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں اپنی نشست سنبھالی۔ امریکا کے اس نئے (لیکن تجربے کار) صدر نے بیک جنبش قلم ’مسلمانوں پر عائد پابندی‘ کو ختم کردیا۔

انہوں نے امریکا میں داخلے پر عائد امتیازی پابندیوں کو ختم کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے اور یوں ایران اور یمن جیسے ممالک کے شہری بھی اب ویزا حاصل کرکے امریکا کا سفر کرسکتے ہیں۔

یہ بہت ہی احمقانہ پابندی تھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس پابندی سے مسلم شدت پسندوں کو امریکا آنے سے روکا جاسکے گا۔ کچھ ہفتے قبل مقامی امریکی دہشتگردوں نے امریکی سینیٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ’مسلمانوں پر لگنے والی پابندیوں‘ کی کہانی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے۔

’مسلمانوں پر عائد پابندیوں‘ کے خاتمے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ امریکا دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے۔ اگرچہ مسلمان تو پابندی سے آزادی حاصل کرچکے لیکن ایک نئی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ نئے صدر بائیڈن کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا گئے

معاملہ یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں مقیم افراد جو امریکی شہری نہیں ہیں، وہ اب امریکا نہیں آسکتے۔ یہ ایک ایسی پابندی ہے جس کا کچھ سال پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ، برازیل اور کچھ دیگر ممالک کے شہریوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ (یہ پابندی پہلے بھی عائد تھیں لیکن سابق صدر ٹرمپ نے اپنی مدتِ صدارت کے آخری دنوں میں اسے ختم کردیا تھا)۔

ان پابندیوں کی روشنی میں مستقبل میں لگنے والی سفری پابندیوں کا خاکہ بنایا جسکتا ہے۔ وہ ممالک جہاں کورونا کی ویکسین اور اس وائرس سے بچنے کی خاطر خواہ سہولیات موجود نہ ہوں، اور جہاں موجود وائرس کی قسم موجودہ ویکسین سے ختم نہ ہوسکے، تو ان ممالک کے شہریوں کو مستقبل میں سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ویکسین کی دستیابی کے بعد بھی اس کی صلاحیت اور ممالک میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بھی آمد و رفت میں رکاوٹ بنی رہے گی۔

بائیڈن انتظامیہ نے ایک اور ابتدائی قدم اٹھاتے ہوئے کانگریس کو ایک نیا ایمیگریشن بل بھیجا ہے۔ اس بل کے مطابق نئی حکومت دیگر ممالک سے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کو امریکا لانے پر ہچکچاہٹ محسوس کررہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی کچھ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بڑی تعداد میں ایچ-1 بی (H-1B) رکھنے کی مخالف تھی۔ اس عمل کو قابو کرنے کے لیے انہوں نے اس کے طریقہ کار میں رکاوٹیں حائل کیں، کبھی اس پر مکمل پابندی لگادی اور کبھی پابندی ہٹالی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر ملکی افراد کو وہ نوکریاں ملنی چاہئیں جو دراصل مڈل کلاس امریکیوں کے لیے ہیں؟ یہ سوال جتنا ٹرمپ انتظامیہ کے لیے مشکل تھا اتنا ہی بائیڈن انتظامیہ کے لیے بھی مشکل ہے۔

شاید اسی وجہ سے بائیڈن کی ایمیگریشن پالیسی کا مرکز ایک کروڑ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ بائیڈن اتنظامیہ ان افراد کو معافی اور شہریت کے حصول کا آسان راستہ فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ بچپن میں غیر قانونی طور پر امریکا لائے گئے افراد کے لیے بھی کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے گا۔ ٹرمپ کی جانب سے پناہ کی درخواستوں پر عائد پابندی اور بچوں کو والدین سے الگ کرکے قید کرنا اب قانون نہیں رہا ہے۔

مزید پڑھیے: سفری پابندیاں عارضی نہیں، دنیا کو مستقبل میں کونسے بڑے خطرے لاحق ہیں؟

بائیڈن کا امریکا اب وہ امریکا نہیں ہوگا جہاں دنیا کے قابل ترین افراد آسانی سے ہجرت کرجائیں گے اور شہریت بھی حاصل کرلیں گے۔ امریکا کو اس وقت وائرس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی گراوٹ جیسے 2 بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ سفری پابندیوں سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور کھلی سرحدوں کی وجہ سے سامنے آنے والے صحت کے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اسی طرح نوکریوں کی کمی کا مطلب یہ ہوگا کہ تارکینِ وطن اور غیر ملکیوں کو نوکریاں ملنا مشکل ہوجائے گا۔ غیر قانونی مہاجرین کو معافی ملنے سے امریکی شہریوں میں کروڑوں کا اضافہ ہوگا اور مہاجرین کے لیے ویزوں کا انتظار مزید طویل ہوجائے گا۔ اس وجہ سے ان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جو امریکا آکر اپنے ویزے کی مدت بڑھوانے کے بجائے قانونی طریقے سے امریکا جانا چاہتے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے امریکا کو ماحول کے حوالے سے ہونے والے پیرس معاہدے اور عالمی ادارہ صحت کا دوبارہ حصہ بنادیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا مقصد لبرل عالمی نظام میں امریکا کو دوبارہ متعارف کروانا ہے۔ تاہم نئی سفری پابندیاں عائد کرنا اور غیر ملکی مزدوروں کے لیے کچھ پرانی پابندیوں کو برقرار رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اب امریکا ذہین ترین افراد کے لیے اپنے دروازے پہلے کی طرح کھلے نہیں رکھے گا۔

مسلمانوں پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا سے متعلق ٹرمپ کے بیانیے کا خاتمہ بلاشبہ ایک اچھی خبر ہے، لیکن جو بائیڈن کا امریکا عمل سے زیادہ نظریات میں مختلف ہوگا۔ وبا کی وجہ سے دنیا سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایسا کوئی ماضی نہیں ہے جسے دوبارہ بحال کیا جاسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نئی دنیا کی حدود پہلے سے بھی زیادہ سخت ہوں گی۔

مزید پڑھیے: ’20 جنوری کو ٹرمپ ازم ختم نہیں ہوگا‘

آج لوگ وائرس کو پھیلائے بغیر اور زیادہ وسائل استعمال کیے بغیر آن لائن ایک دوسرے تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ زیادہ تر فکری کام اسی ذریعے سے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقت میں اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کی بنیاد پر ہجرت کرنے کے مواقع بہت کم ہوں گے۔

پاکستان کو بھی اب ایک ایسی دنیا کی لیے تیاری کرنی ہوگی جس میں خیالات کا آن لائن تبادلہ ہو۔ اگرچہ دہشتگردی کے پیش نظر لگنے والی سفری پابندی ختم ہوچکی ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندیاں ابھی برقرار رہیں گی۔

ایسے موقع پر پاکستانی معیشت کا انحصار ترسیلاتِ زر پر نہیں رکھا جاسکتا۔ خلیجی ممالک اور امریکا کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو دفتر سے دُور بیٹھ کر کام کرنے کی سہولیات متعارف کروانی چاہئیں۔ اس طرح وہ انجینیئر اور کمپیوٹر سائنٹسٹ جو کبھی خلیجی ممالک اور مغربی ممالک میں بھیجے گئے تھے وہ ویزا پابندیوں کی فکر کیے بغیر دفتر سے دُور بیٹھ کر اپنا کام کرسکیں۔

دنیا اب تبدیل ہورہی ہے۔ کورونا سے پہلے کی دنیا اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے۔ جو کوئی بھی تیزی سے خود کو اس نئی دنیا کے مطابق ڈھال لے گا وہی اس نئی دنیا سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا۔


یہ مضمون 27 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں