امریکا نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت روک دی

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2021
امریکا نے متحدہ عرب امارات کو ایف-35 طیاروں کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا — فائل/فوٹو: اے پی
امریکا نے متحدہ عرب امارات کو ایف-35 طیاروں کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا — فائل/فوٹو: اے پی

امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے سابق صدر کی پالیسی کا جائزہ لینے کی غرض سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت عارضی بنیادوں پر روک دی۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے اپنی پہلی بریفنگ میں بتایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت کی پالیسی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جائزے کا مقصد ہماری حکومت کے اہداف کو جدت بخشنے اور خارجہ پالیسی کو مؤثر بنانے کے عمل کو یقینی بنانا ہے اور اس وقت ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے معاہدے کے بعد امریکا سے ایف 35 طیارے ملنے کا امکان

قبل ازیں امریکی میڈیا میں رپورٹس آئی تھیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے اربوں ڈالر مالیت کے اسلحے کی فروخت عارضی طور پر بند کر دی ہے، جس میں سعودی عرب کو فراہم کیا جانے والا جدید اسلحہ اور متحدہ عرب امارات کو ایف-35 کی فروخت بھی شامل ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا اور اب وہ ٹرمپ کے متعدد فیصلوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور کئی پالیسیوں کو تبدیل بھی کر رہے ہیں۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں تعینات متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العطیبہ نے اپنے بیان میں کہا کہ متحدہ عرب امارات، مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے جو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف-35 امریکا جیسے اتحادیوں کو ملٹری ہارڈ ویئر فروخت کرنے سے کہیں بڑا پیکیج ہے، اس سے متحدہ عرب امارات کو کسی قسم کی جارحیت روکنے کیے لیے مضبوط طاقت ملتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ نئے مذاکرات اور سیکیورٹی تعاون سے خطے کے اتحادیوں کو یقین دہانی میں مدد ملے گی۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کو مضبوط اور خطے میں ایران کو محدود کرنے کے لیے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے میں تعاون کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یو اے ای کو ایف -35 جیٹ طیاروں کی فروخت، امریکی سینیٹرز کی مخالفت

ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2019 میں ایران کے ساتھ کشیدگی پر قومی ایمرجنسی نافذ کی تھی اور کانگریس سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو 8 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت حاصل کی تھی۔

سابق صدر نے سعودی عرب کو محدود پیمانے کے 29 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا بھی معاہدہ کیا تھا جو گزشتہ برس دسمبر میں ختم ہوگیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے نومبر میں کانگریس کو بتایا تھا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کو ایف-35 اور مسلح ڈرونز سمیت 23 ارب ڈالر اسلحے کی فراہمی کی منظوری دی ہے۔

امریکی حکومت کا یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے فوری بعد سامنے آیا تھا۔

اس وقت کے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ یہ ہمارے گہرے تعلقات کا مظہر ہے اور متحدہ عرب امارات کو جدید دفاعی نظام کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایران سے درپیش خطرات کا دفاع کر پائے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر امریکا میں انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک اراکین نے بھی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے خطے میں اسلحے کی خطرناک دوڑ شروع ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں