پشاور: 'مرکز دارالاطفال میں بچوں سے زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا'

30 جنوری 2021
بچوں کو پشاور کے دارالاطفال میں کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو بشکریہ روٹریکٹ کلب آف پشاور ایگزیکٹو
بچوں کو پشاور کے دارالاطفال میں کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو بشکریہ روٹریکٹ کلب آف پشاور ایگزیکٹو

پشاور: محکمہ سوشل ویلفیئر کی تحقیقات میں پشاور کے بے سہارا بچوں کے مرکز دارالاطفال میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور جسمانی زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ دن پہلے صوبائی اسمبلی کے فلور پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی مدیحہ نثار نے مرکز کی خاتون منتظم پر یتیم خانے میں بچوں کا استحصال کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ یہ مرکز 'بچوں سے زیادتی' کا مرکز بن گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پشاور کا دارالامان جنسی زیادتی کا اڈا بن گیا ہے، پی ٹی آئی رکن اسمبلی

ان الزامات کے بعد اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین سے تعلق رکھنے والے فضل شکور نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے قیام سے قبل محکمہ سوشل ویلفیئر کی ایک کمیٹی نے اس مرکز کا دورہ کیا تھا، اسمبلی سکریٹریٹ نے ابھی تک الزامات کی تحقیقات سے پینل کو مطلع نہیں کیا ہے۔

سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرکز کو چلانے والی یہ تنظیم 1956 سے فلاحی کاموں کے میدان میں کام کر رہی ہے، ابتدا میں یہ سرگرمیاں آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (اے پی ڈبلیو اے) کے زیر سایہ آتی تھیں، اس سرگرمی کو بعد میں 1969 میں دارالامان سے دارالاطفال کی طرف موڑ دیا گیا تھا اور 2010 میں رضاکارانہ سوشل ویلفیئر ایجنسی آرڈیننس 1961 کے تحت محکمہ سوشل ویلفیئر کے ساتھ باضابطہ طور پر اندراج کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر نے مرکز کا معائنہ کرنے اور اس کی خاتون منتظم کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دارالامان میں آرزو راجا کی دیکھ بھال کیلئے سماجی بہبود کی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم

ایک سرکاری دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ ایڈیشنل سیکریٹری (سماجی بہبود) کے زبانی حکم پر کمیٹی نے یتیم خانے کا دورہ کیا جس میں 29 لڑکے اور 20 لڑکیاں تھیں۔

کمیٹی نے مرکز کا دورہ کیا لیکن یتیم خانے کے رہائشیوں کو ہراساں، یتیم بچوں خصوصاً لڑکیوں کے جسمانی استحصال اور عطیہ کی جانے والی اشیا کی بازار میں فروخت کے ثبوت نہیں مل سکے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جو ان الزامات کی حمایت کر سکیں۔

سرکاری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ بچوں نے یتیم خانے میں رہنے میں دلچسپی ظاہر کی اور اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے اراکین نے مرکز کے تمام بچوں سے بات چیت کی جنہوں نے انہیں بتایا کہ انتظامیہ ان کا ان سے دوستانہ رویہ ہے اور انہیں مفت تمام تر سہولیات مہیا کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: کابینہ نے سخت سزاؤں کے لیے انسداد ریپ قوانین کی منظوری دے دی

انتظامیہ بچپن سے ہی دو بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے جنہیں نامعلوم افراد مرکز کی دہلیز پر چھوڑ گئے تھے، اب وہ 20 سال سے زیادہ عمر کے بڑے بچے ہیں۔

ان کے مطابق یتیم خانے کے مرکزی ڈونر نے ان دونوں بچوں کے والدین کے طور پر اپنا نام لکھوایا ہے اور قومی شناختی کارڈ کے حصول میں ان کی مدد کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ نے اس وقت مجموعی طور پر 16 تنخواہ دار ملازمین کی تعیناتی کی ہے اور اس مرکز میں ڈائننگ ہال، اسٹورز، اسٹڈی رومز، کچن، واش رومز اور تفریحی کمرے سمیت تمام بنیادی سہولیات موجود ہیں۔

تاہم کمیٹی نے تجویز دی کہ مرکز کی انتظامیہ ریکارڈ رکھنے کے نظام کو بہتر بنائے، تربیت یافتہ عملے کی خدمات حاصل کرے ، ملازمین کی تعداد میں اضافہ کرے اور بچوں کے لیے مشاورت فراہم کرنے والی کلاسوں کا اہتمام کرے۔

یہ بھی پڑھیں: آرزو کی مسلم شخص سے شادی قانون کے مطابق ہے، وکیل دفاع

جب رکن صوبائی اسمبلی مدیحہ نثار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس مرکز میں بچوں کے استحصال کے ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر کمیٹی کو مطلع کریں اور میرے پاس اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں