مکمل تصدیق کے بعد ہی طلبی کا نوٹس جاری ہونا چاہیے، عدالت

اپ ڈیٹ 02 فروری 2021
عدالت نے امید ظاہر کی کہ بیورو کسی شخص کو طلب کرتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کرے گا—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت نے امید ظاہر کی کہ بیورو کسی شخص کو طلب کرتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کرے گا—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے افراد کو طلبی کے نوٹس بھیجنے کے اختیار کی دوبارہ وضاحت کی اور قرار دیا کہ کسی شخص کو صرف مکمل تصدیق کے بعد ہی طلب کیا جاسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق، جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن رخسانہ بنگش کی جانب سے دورانِ تفتیش ضمانت کی درخواست خارج کرتے ہوئے فیصلہ تحریر کیا۔

سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ رخسانہ بنگش نیب کی انکوائری کا سامنا کررہی ہیں اور بیورو سے انہیں طلبی کا نوٹس موصول ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب سے مطمئن نہیں، احتساب قانون کے مطابق نہیں ہوگا تو ادارے کیخلاف ایکشن لیں گے، سپریم کورٹ

فاروق ایچ نائیک کا مزید کہنا تھا کہ نیب کا نوٹس ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ کی دی گئی رہنما ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ بیٹے سے متعلق کیس میں ان کی موکلہ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ رخسانہ بنگش کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ عدالت عظمیٰ نے طلبی کے نوٹسز کو خلاف قانون قرار دیا تھا اس لیے نیب ترمیم شدہ سوال نامہ ارسال کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت، نیب کے اختیارات کم کرنے کے لیے متحرک

ان کا کہنا تھا کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے ایک روز میں 21 ہزار ڈالر مالیت کی غیر ملکی کرنسی خریدنے کے لیے کی گئی ٹرانزیکشن کے خط موصول ہونے کے بعد رخسانہ بنگش کے بیٹے کے خلاف انکوائری شروع کی گئی تھی۔

بینچ نے کہا کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کی دفعہ 19 کے تحت نیب کے پاس معلومات کے لیے طلب کرنے کا اختیار ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ اور سندھ ہائی کورٹ نے معلومات حاصل کرنے کے نیب کے اختیارات کا جائزہ لیا تھا اور ایک ملزم یا ایک گواہ کو تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی رائے یہ تھی کہ رخسانہ بنگش کو جاری کردہ طلبی کا نوٹس عدالت عظمیٰ کی مقرر کردہ رہنما ہدایات کی خلاف ورزی ہے اور قرار دیا کہ ایک فرد کو چاہے ملزم یا گواہ کے طور پر طلب کیا جائے اسے طلب کیے جانے کی وجہ معلوم ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'چیئرمین نیب کو گرفتاری کا اختیار دیا جانا غیر قانونی ہے

عدالت نے نیب کی جانب سے طلب کرنے کے طریقہ کار کی دوبارہ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر اس میں 'انکوائری' یا 'تفتیش' کی وجوہات موجود ہونی چاہئیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ گواہ ہونے کی صورت میں نوٹس میں وہ مقصد لازمی تحریر ہو جس کے لیے فرد کو طلب کیا جارہا ہے اور اگر فرد کسی ریکارڈ کا محافظ ہو تو 'طلبی کے نوٹس میں یہ بات اور دستاویزات اور ریکارڈ کی تفصیلات شامل ہونی چاہیے'۔

عدالت نے اُمید ظاہر کی کہ قومی احتساب بیورو انکوائری یا تفتیش کے سلسلے میں کسی شخص کو طلب کرتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کرے گا۔


یہ خبر 2 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں