بھٹہ مزدور 'پیشگی رقم' واپس کرنے کے پابند نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

03 فروری 2021
کمیشن کے مطابق بھٹہ مزدوروں کو پیشگی رقم کی فراہمی غیر قانونی ہے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
کمیشن کے مطابق بھٹہ مزدوروں کو پیشگی رقم کی فراہمی غیر قانونی ہے — فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ بھٹہ مزدور قرض کے طور پر لے گئے 'ایڈوانس' (پیشگی) رقم کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ بچوں سے مزدوری کروانے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کررہے تھے۔

سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پیشگی قرض دینا ایک غیر قانونی عمل ہے۔

مزید پڑھیں: بھٹہ مالک کی دوران حراست ہلاکت، مقدمے میں ڈی ایس پی نامزد

عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ ایک آگاہی مہم چلائیں جس میں بتایا جائے کہ مزدور اپنی مرضی کے بغیر بھٹہ پر کام کرنے کے پابند نہیں ہیں اور وہ اپنی مرضی سے نوکری بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ، عدالت نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات اور معاملات دیکھنا تھا، کمیشن میں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت، وکلا عدنان حیدر رندھاوا اور عمر گیلانی اور نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم شامل تھے۔

کمیشن نے منگل کے روز ایک رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھٹہ مزدوروں کو پیشگی رقم کی فراہمی غیر قانونی ہے کیوں کہ یہ جدید دور میں لوگوں کو غلام بنانے کا نیا طریقہ ہے۔

کمیشن نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پیشگی قرض میں توسیع کا عمل بغیر کسی استثنیٰ کے بھٹہ کے شعبے میں حد سے زیادہ پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں اس شعبے میں وسیع پیمانے پر ملازمین کو پابند کیا جا رہا ہے اور یہ ایبولیشن (خاتمہ) ایکٹ 1992 کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بیشتر بھٹہ مزدور اینٹوں کے بھٹے کی حدود میں ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام پذیر ہیں اور خواتین اور بچوں کو خاندان کے سرپرست کے ساتھ غیر رسمی طور پر کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں انہیں ایک فرد کے مزدور کے طور پر کام کرنے کے بجائے ایک خاندان کے طور پر اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے کو کہا جاتا ہے، یہ عمل بچوں اور خواتین سے متعلق مزدور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کمیشن نے تجویز دی کہ اسلام آباد کیپٹل ٹیراٹری کا لیبر ڈپارٹمنٹ 3 ماہ میں فیکٹریز ایکٹ 1934 کے تحت اپنی حدود میں تمام اینٹوں کے بھٹے رجسٹرڈ کرنے کو یقینی بنائے جس کا آغاز یکم فروری سے ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: اینٹوں کے بھٹوں کی بندش کے حکومتی منصوبے پر تنقید

رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی کہ لیبر ڈپارٹمنٹ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ لیبر قوانین کے مطابق ملازمت کے معاہدے اور تجویز کردہ رجسٹریشن کا عمل مکمل ہو، اس میں مزید کہا گیا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ہی ہدایات دی جانی چاہیے کہ وہ آئندہ 3 ماہ میں اپنی ٹمیوں کو بھٹہ مزدوروں، ان کے اہل خانہ (خواتین اور بچوں) کے اندراج اور مزدوروں کو قومی شناختی کارڈ کا اجرا کریں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ قانون، تعمیرات کے کام کے تحت آتا ہے اور بچوں کی ملازمت کے ایکٹ 1991 کے شیڈول ٹو میں ممنوع ہے۔

بعد ازاں عدالت نے ضلعی انتظامیہ سے کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔


یہ رپورٹ 3 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں