لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

یہ ابھی 2 دن پہلے یعنی گزشتہ بدھ کی بات ہے جب دنیا کی مشہور شخصیات نے بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج کے حق میں ٹوئیٹ کی۔ یہ احتجاج 2014ء کے بعد سے مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

جہاں تک یکجہتی کے اظہار کے لیے کی جانے والی ٹوئیٹس کی بات ہے تو پاپ گلوکارہ ریحانہ اور تحفظِ ماحول کے لیے کام کرنے والی گریٹا تھنبرگ کی مداخلت عمومی نوعیت کی تھی لیکن اس پر جو ردِعمل آیا وہ شدید تھا۔

بھارت کے معروف کھلاڑیوں اور بولی وڈ کی شخصیات نے ’غیر متعلق افراد‘ کو بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل دینے، بھارتی معیشت میں کسانوں کی اہمیت پر بات کرنے اور حکومت کو کسی پُرامن حل تک پہنچنے پر مجبور کرنے پر کھلی دھمکیاں دیں۔ گریٹا تھنبرگ پر تو دہلی پولیس نے سازش کا مقدمہ بھی کردیا ہے۔

معروف شخصیات کی جانب سے مودی حکومت کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی حکومت نے کس طرح ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کی رجحان سازی کی ہے۔ مودی اس دور کے واحد سیاستدان نہیں ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کی پذیرائی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ اس کا آغاز ٹرمپ نے کیا تھا اور اس فہرست میں عمران خان بھی شامل ہیں۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کے ٹرولرز پوری دنیا میں تحقیق کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی بالآخر کئی ترقی پسندوں، نامور خواتین صحافیوں، قانونی ماہرین اور فنکاروں کو آن لائن ہراساں کرنے کے معاملے پر توجہ دی جارہی ہے۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومتی طاقت کا استعمال کرنے والے بازاری لیڈر ایک بہت گہرے معاشرتی رجحان کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔

ٹرمپ کے جانے کو کچھ لوگوں نے دائیں بازو کے زوال کے طور پر دیکھا تھا۔ واقعی ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم سیاست اور سماج میں رائج نفرت کو ختم کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارم نفرت پھلانے والوں کا سب سے اہم ذریعہ ہیں، اس وجہ سے یکجہتی کی سیاست پر غور کرنے کی ضرورت ہے جسے بائیں بازو کی جانب سے استعمال کیا جاتا ہے۔

یکجہتی کی سیاست سے میری مراد سوشل میڈیا کے ذریعے ترقی پسندوں کا ایسا تحرک ہے جو کسی خاص جغرافیے میں قید نہ ہو۔ ہم خیال لوگوں کی جانب سے کسی بھی مسئلے پر ہونے والے احتجاج سے یکجہتی کا اظہار کیا جاسکتا ہے خاص طور پر جب اس احتجاج کو پُرتشدد ردِعمل کا سامنا ہو۔

اس وقت یہ سیاسی تحرک امیروں اور طاقتور افراد کی ناک میں دم کرسکتا ہے اور اس کی مثال ہم نے رواں ہفتے بھارت میں دیکھ لیا۔ لیکن ’اسٹیٹس کو‘ کے خلاف ایک واضح سیاسی بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے اور یکجہتی کی سیاست کسی صورت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ دنیا کو درپیش بحرانوں کے حل کے لیے متاثرہ لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں ہے۔

24 گھنٹے چلنے والی خبروں اور سوشل میڈیا ٹائم لائن پر سیاسی بیانیے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہاں ہر لمحے ایک نیا موضوع آجاتا ہے۔ ایسا ماحول دائیں بازو کی قوتوں کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ تاہم ترقی پسند کہلائے جانے والوں کی شناخت ہی ان کے واضح اور مربوط سیاسی بیانیے سے ہوتی ہے۔

20ویں صدی کے دوران بائیں بازو کی سیاست کے عروج کے دور میں خود کو ترقی پسند کہلوانے کا مطلب اپنی شناخت سوشلسٹ نظریات کی حامی کے طور پر کروانا تھا۔ آج کے دور میں کسی کی توجہ بھی ثقافتی، سماجی اور معاشی تبدیلی لانے پر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی کسانوں کی مدد کرنے کے لیے ہمیں ماحول کو نقصان پہنچانے اور منافع کمانے کے لیے اختیار کیے گئے زراعت کے طریقوں کو بدلنا ہوگا اور شہروں اور دیہاتوں کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہوگا۔

یکجہتی کی سیاست کو ریاستی ادارے بھی محدود کرسکتے ہیں۔ آپ پاکستانی ٹرولرز کی ہی مثال لے لیں جو بھارت جیسے دشمن ملک میں چلنے والی عوامی تحریکوں سے تو یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہی ٹرولرز اپنے ملک میں مقامی، طبقاتی یا حقوق نسواں کی تحریکوں اور ان کی حامیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔

آج 5 فروری ہے، آج کے دن ’آفیشل‘ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کشمیریوں کے حقوق کے لیے دائیں بازو کے افراد کے مقابلے بائیں بازو کے ترقی پسند زیادہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کے وہ ٹرولرز جو آج کے دن کشمیریوں کی جدوجہد کی تعریف کریں گے اپنے ہی ملک میں ان تمام لوگوں کو بدنام کریں گے جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔

بائیں بازو کی جانب سے مختلف مسائل پر الگ الگ یکجہتی کا اظہار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح سوشل میڈیا پر جاری نفرت کے طوفان کو روکنے کے لیے مضبوط بیانیہ تشکیل نہیں پاتا۔ جس طرح میں اوپر ذکر کرچکا ہوں کہ ترقی پسند دوسروں سے یکجہتی کا اظہار کرکے کچھ لڑائیاں جیت سکتے ہیں لیکن وہ لوگ جو آن لائن ہی جیتے ہیں وہ عام طور پر اسٹیبلشمنٹ کے حامی بیانیے کا ساتھ دیتے ہیں اور طاقت کے موجودہ نظام کا ساتھ دیتے ہیں۔

بھارتی کسانوں کا احتجاج ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کا احتجاج ہے جو واقعی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اس احتجاج سے اندازہ ہوتا ہے نچلی سطح کی تحریکیں جن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ ہونے والے اظہارِ یکجہتی کی مدد سے ظالمانہ نظام کے خلاف ایک حقیقی تبدیلی لاسکتے ہیں۔


یہ مضمون 5 فروری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں