اس بات سے قطع نظر کہ اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کا احتجاج ایک ڈیڑھ دن ہی رہا، اور پھر مطالبات کی منظوری کے بعد ملازمین سے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان بھی ہوگیا، لیکن دارالحکومت کے سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث تیز ہوگئی ہے کہ ریڈ زون میں سرکاری ملازمین کے احتجاج کو ’دنگے‘ میں کس نے تبدیل کیا؟

لاٹھی چارج اور پھر شیلنگ سے بننے والا بدترین دھواں ملک کی اقتداری عمارتوں کو ڈھانپے ہوئے تھا اور اس دھوئیں کے سائے میں زبردست قسم کی نعرے بازی کا شور، شیل فائر کی آوازیں اور گرفتاریاں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کیا یہ وہی منظر نہیں دھرایا جارہا جب مشرف سے جان چھڑانے کے لیے ججز بحالی تحریک شروع ہوئی تھی۔

وہی تحریک جو بعد میں ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی’ کے نعرے میں تبدیل ہوئی، اور نعرہ دینے والے کو ایک عرصے بعد پتہ چلا کہ جس تحریک میں انہوں نے اپنی سیاست، مال اور کیریئر داؤ پر لگادیا تھا وہ ان کی اپنی نہیں کسی اور کی تھی۔

اس بار بھی اسلام آباد کے ریڈ زون میں سرکاری ملازمین کا ہونے والا احتجاج جسے حکومت اور انتظامیہ نے پُرتشدد بنانے میں اہم کردار ادا کیا، کیا یہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی ابتدا ہے؟

اس ساری صورتحال کو جاننے کے لیے ہمیں کوئی زیادہ نہیں چند ہفتے پیچھے جانا پڑے گا، تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ حالات کتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔

سینیٹ انتخابات سے وزیرِاعظم کو خیال آیا کہ یہ انتخابات تو درحقیقت اوپن بیلیٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ ان کے اصولی مؤقف سے کون انکار کرے گا، لیکن وہ ایک اچھا کام بُری نیت سے کرنے جا رہے تھے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے کافی صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران ان کے امیدواروں کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے۔ وزیرِاعظم کی یہ پریشانی ان ممبران کے لیے زیادہ ہے جو ایک بڑے عرصے سے پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے ان سے ناراض ہیں۔

وزیرِاعظم کی سینیٹ انتخابات میں اوپن بیلیٹ کی تجویز اسی وقت حقیقی صورت اختیار کرسکتی تھی، جب آئین میں ترمیم کی جاتی، لیکن آئین میں ترمیم اپوزیشن کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی، مگر حیران کن طور پر اس معاملے کے حل کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے کوئی حکومتی کمیٹی نہیں بنائی گئی جو حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے بات چیت کرکے انہیں قائل کرتی۔

دسمبر کے آخری ہفتے سے لے کر فروری کے پہلے ہفتے تک جس طرح اہم سیاسی واقعات رونما کرکے خود حکومت نے اپنے لیے مسائل کھڑے کیے ہیں وہ بڑے حیران کن ہیں۔

مثال کے طور پر جب وزیرِاعظم کو سینیٹ انتخابات میں ارکان کے انتخاب کے لیے اوپن بیلیٹ کا خیال آیا تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کردیا۔ اس ریفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت نہیں بلکہ انتخابی اصلاحات کے قانون 2017ء کے تحت کرائے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک عالمگیر اصول ہے کہ جب ریاست کے آئین اور قانون کے درمیان تصادم ہوجائے تو آئین کو فوقیت دی جاتی ہے، لیکن موجودہ حکومت اس عالمگیر اصول کو پس پشت ڈالنا چاہتی ہے۔

ابھی یہ معاملہ زیرِ سماعت ہی تھا کہ گزشتہ سال مارچ سے قومی اسمبلی میں سینیٹ میں شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے اور دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو انتخابات میں کامیابی کے بعد شہریت ترک کرنے کی آئینی ترمیم کا پڑا ہوا بل رواں سال جنوری میں قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بڑی عجلت سے پاس کروایا گیا۔

حکومت کو 100 فیصد اندازہ تھا کہ یہ آئینی ترمیم کا بل کسی صورت دونوں ایوانوں سے پاس نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے پاس ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں عددی اکثریت نہیں ہے، اور چونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے اتنے بڑہ گئے ہیں کہ اب حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر مبنی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی اعلان کردیا ہے کہ وہ آئین و قانون سازی میں حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے، لہٰذا اس صورت میں ممکن نہیں تھا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سے 3 کے مقابلے میں 6 ووٹوں سے پاس کرایا گیا آئینی ترمیمی بل ایوان سے منظور ہوجاتا۔

حکومت یہ چاہتی تھی کہ اپوزیشن اس بل کی مخالفت کرے اور پھر اس مخالفت کو جواز بناکر اپوزیشن کو عوام میں بدنام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے گا کہ کس طرح اپوزیشن ہارس ٹریڈنگ کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن 3 اور 4 فروری کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ اندازہ ہوا کہ حکومت درحقیقت اپوزیشن کی نہیں بلکہ اپنی دشمن بنی ہوئی تھی۔

26ویں آئینی ترمیم کا بل تو پیش کیا گیا، لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا کیونکہ اپوزیشن عدم تعاون کا فیصلہ کرچکی تھی اور وہ اس ترمیم کی مخالفت کرکے حکومت کو یہ موقع نہیں دینا چاہتی تھی کہ اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے، جبکہ حکومت کی سرگرمیوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی اس ترمیم کے لیے کوئی زیادہ سنجیدہ نہیں تھی۔

ان 2 دنوں میں ہونے والے اجلاس میں ویسے تو بہت کچھ ہوا لیکن جب معاملہ آئینی ترمیم کی طرف آگے بڑھا تو وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کورم کی نشاندہی کردی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ کسی آئینی ترمیم کے بل کے دوران حکومت کی جانب سے کورم کی نشاندہی پارلیمانی تاریخ کی انوکھی مثال تھی۔ یہ وہی فواد چوہدری صاحب ہیں جنہوں نے کچھ دن بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ 26 مارچ کو پی ڈی ایم کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی نوبت نہیں آئے گی۔ معلوم نہیں کس تناظر میں وہ یہ بات کر رہے تھے، لیکن یہ اندازہ ضرور ہوا کہ ان کے اس جملے کا پس پردہ مقصد کچھ تو ضرور تھا۔

4 فروری کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس شور شرابے میں غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوا تو اس میں پہلی بار ایسا ہوا کہ یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے متفقہ قرارداد بھی منظور نہیں ہوسکی۔

اس اجلاس کے ٹھیک 2 دن بعد سینیٹ اوپن بیلیٹ کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ یہ آرڈیننس کس پر اثر انداز ہونے کے لیے جاری کیا گیا اس بارے میں اپوزیشن کے الزامات تو ایک طرف لیکن اب خود حکومت کے لوگ بھی اپنے حلقوں میں اس پر بات کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

ابھی یہ شور جاری تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ ہوگیا اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کو محصور کرکے ان کے چیمبر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دوسرے دن سینیٹ انتخابات کے حوالے سے 2018ء کی پرانی ویڈیو اچانک سامنے آگئی اور ایک دن بعد اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہنگامہ برپا تھا۔ ان چند واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ یہ اچانک نہیں ہوئے، ان سب واقعات کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔

اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کے لیے سندھ اور بلوچستان سے سرکاری ملازمین پہنچے، ایک درجن کے قریب ان کی بسیں تو ستارہ مارکیٹ میں کھڑی نظر آئیں۔

ایک یونین لیڈر نے ہمیں بتایا کہ ’جب حکومت کے ملازمین سے مذاکرات ناکام ہوئے تو رات 3 بجے یونین لیڈران کے گھروں پر چھاپے مارکر انہیں گرفتار کیا گیا، اس طرح تو مارشل لا کے ادوار میں ہوتا ہے’۔

یونین لیڈران کی گرفتاریوں نے دوسرے روز ہونے والے سرکاری ملازمین کے احتجاج کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سب کچھ ہورہا تھا اور حکومت کی ایک اہم وزیر نے اس سارے معاملے کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسلام آباد میں سرکاری مشینری نے کام چھوڑ دیا تھا، ریڈ زون کی جانب جانے والی تمام سڑکیں بند کردی گئیں تھیں، شیلنگ اتنی شدید تھی کہ بلیو ایریا، مارگلہ روڈ اور ایوان صدر اور اس کی کالونی پی ایم ہاؤس سمیت ایک بڑے علاقے میں لوگوں کا سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ ہنگامے والی رات کو آفیسر آن منیجمینٹ گروپ نے بھی ملازمین پر تشدد کی مذمت کی اور ان کے مطالبات کی توثیق کی۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی کہ افسران کی تنظیم نے پریس ریلیز جاری کرکے حکومت کے تشدد کے عمل کی مذمت کی کیونکہ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا کہ افسران کھل کر سامنے آجائیں۔

جس دن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر حملہ ہوا تھا اس دن وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے بیٹ رپورٹرز سے ملاقات کی اور جب وکلا کے حملے سے متعلق ان سے سوال ہوا تو انہوں واضح کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کریں گے۔ لگتا ہے کہ وکلا زیادہ اہم تھے۔

اب آتے ہیں کہ آنے والوں دنوں میں کیا ہوگا؟

پی ڈی ایم تو اپنا لانگ مارچ لے کر مارچ کے آخری ایّام میں اسلام آباد پہنچے گا، لیکن اس سے پہلے ملک کے مختلف اداروں سے برطرف کیے گئے سرکاری ملازمین اسلام آباد کا رخ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی یونینز بھی متاثرین کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کرنے کا فیصلہ کرنے جارہی ہیں اور ریڈیو پاکستان سے نکالے گئے ملازمین بھی ان میں شامل ہوں گے، جبکہ آڑھتی بھی احتجاج کی تیاریاں کر رہے ہیں، جن کے احتجاج کی صورت میں ملک بھر میں غذائی اجناس کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

اس سارے معاملے میں ایک بُری خبر یہ بھی ہے کہ مارچ میں ہی چینی کی قیمت میں اضافے کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہونے جارہا ہے تو پھر شیخ رشید کی وزارت کیا کرے گی؟ ظاہر ہے کہ اس بار چوہدری نثار کا کام شیخ رشید ہی کریں گے!

وہ جو دعوے کیا کرتے تھے کہ سبھی ایک پیج پر ہیں، آنے والے ایّام اس سچائی سے پردہ اٹھاتے جائیں گے۔ حکومت اس بات کو مانے یا نہ مانے گزشتہ چند ہفتوں نے اسے سیاسی طور پر کافی کمزور کردیا ہے۔

سینیٹ انتخابات کے متوقع نتائج اسے مزید کمزور کرنے کا پتہ دے رہے ہیں۔ 2018ء کی ویڈیو کا اس وقت سامنے آنا حکومت کی بے ڈھنگی کوشش نہیں لگتی، کیونکہ اس ویڈیو نے اپوزیشن کو نہیں خود تحریک انصاف کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن حیرانی یہ ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی حکومت اپنے خلاف کی گئی سازش کا خود حصہ بننے جارہی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دی تھی تو مسلم لیگ (ن) والے سپریم کورٹ کے احاطے میں مٹھائیاں تقسیم رہے تھے، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ ان کی خوشی بے وقوفی سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔

پاکستان میں اس وقت بے چینی صرف سیاسی ایوانوں میں ہی نہیں کہیں اور بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی ہی نہیں انتظامی سطح پر بھی بے یقینی واضح ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کو جو کام 2 سال پہلے کرنے چاہئیں تھے وہ اسے اب یاد آرہے ہیں۔ کہتے ہیں جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے!

تبصرے (0) بند ہیں