امریکا میں کورونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت

15 فروری 2021
یہ ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا — شٹر اسٹاک فوٹو

دنیا بھر میں برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی اقسام تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

مگر امریکا میں ہی اب دریافت ہونے والی7 نئی اقسام نے سائنسدانوں کو فکرمند کردیا ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر زیادہ متعدی ہوسکتی ہیں۔

ایک نئی تحقیق میں امریکا میں کورونا وائرس کی 7 نئی اقسام دریافت ہونے کا انکشاف کیا گیا جو مختلف ریاستوں میں نظر آئی ہیں اور ان سب ایک میوٹیشن مشترک ہے۔

لوزیانے اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنس سینٹر کے وائرلوجسٹ جرمی کمیل نے بتایا 'اس میوٹیشن کے ساتھ خفیہ طور پر کچھ ہورہا ہے'۔

ابھی یہ تو واضح نہیں کہ یہ میوٹیشن نئی اقسام کو زیادہ متعدی بناسکتی ہیں یا نہیں، مگر وائرس کے جین میں ہونے والی میوٹیشن سے بظاہر اسے انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔

ڈاکٹر جرمی کمیل نے بتایا 'میرے خیال میں یہ ارتفائی فائدے کی واضح نشانی ہے'۔

حالیہ برسوں میں ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ وائرسز ماحولیاتی ضروریات کے مطابق خود کو بدل سکتے ہیں، مثال کے طور پر ایچ آئی وی اس وقت نمودار ہوا جب متعدد اقسام کے وائرسز بندروں اور بن مانسوں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔

ڈاکٹر جرمی نے کورونا کی نئی اقسام کو اس وقت دریافت کیا جب وہ لوزیانے میں کورونا وائرس کے نمونوں کے سیکونس بنارہے تھے۔

جنوری 2021 کے اختتام پر انہوں نے متعدد نمونوں میں ایک نئی میوٹیشن کا مشاہدہ کیا۔

اس میوٹیشن نے کورونا وائرس کی سطح پر موجود پروٹینز یعنی اسپائیک پروٹینز کو بدلا اور جو 1200 مالیکولر بلڈنگ بلاکس یا امینو ایسڈز پر مبنی ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان تمام نمونوں میں ایک میوٹیشن نے 677 ویں امینو ایسڈ کو بدلا۔

انہوں نے تحقیقات کے دوران محسوس کیا کہ میوٹیشن والے تمام وائرسز میں ایک ہی لائنیج ہے۔

بعدازاں انہوں نے وائرسز کے جینومز ایک آن لائن ڈیٹابیس پر اپ لوڈ کیے جس کو دنیا بھر کے سائنسدان استعمال کررہے ہیں۔

اگلے دن انہیں نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈیرل ڈومان کی ای میل موصول ہوئی، جن کی ٹیم نے اسی قسم کو اپنی ریاست میں دریافت کیا گیا تھا، جس میں یہی میوٹیشن ہوئی تھی۔

مزید تحقیقات پر ڈاکٹر جرمی اور ان کی ٹیم نے مزید 6 نئی اقسام کو دریافت کیا جن میں وہی میوٹیشن ہوئی تھی۔

محققین نے ان اقسام کو ملک بھر کے نمونوں میں دریافت کیا مگر وہ یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ یہ میوٹیشن سب سے پہلے کس میں ہوئی۔

برن یونیورسٹی کی ماہر اور تحقیق میں شامل ایما ہوڈکرافٹ نے بتایا 'میں اس وقت نئی اقسام کی ابتدا کے مقام کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکتی'۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ میوٹیشن سے یہ اقسام زیادہ متعدی ہوگئی ہیں، بلکہ محققین کے خیال میں ان کے عام ہونے کی وجہ کرسمس کی تعطیلات کے دوران ملک بھر میں کیے جانے والے سفر ہوسکتے ہیں یا ریسٹورنٹس یا کارخانوں میں سپر اسپریڈرز ایونٹس اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔

تاہم سائنسدان فکرمند ہیں کیونکہ میوٹیشن سے یہ خیال قابل قبول محسوس ہوتا ہے کہ اس سے وائرس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔

ان اقسام میں اسپائیک پروٹین میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے وائرس کے لیے اسپائیک پروٹینز کی مدد سے خلیات کو جکڑنا آسان ہوسکتا ہے۔

ٹیکساس یونیورسٹی کے اسٹرکچرل بائیولوجسٹ جیسن میکلین جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے کہا کہ یہ اہم پیشرفت ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی بھی کورونا وائرس کے ان اسپائیک پروٹینز کے افعال کے بارے میں کافی کچھ معلوم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جاننا بہت مشکل ہے اور اس حوالے سے مزید تجرباتی ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔

ڈاکٹر جرمی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے اس حوالے سے مزید کام کیا جارہا ہے تاکہ اس 677 میوٹیشن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تفصیلات حاصل کی جاسکیں۔

جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں دریافت ہونے والی اقسام میں 501 ویں امینوایسڈ میں میوٹٰشن ہوئی تھی جس سے اسپائیک کے سرے میں تبدیلی آئی۔

اس تبدیلی سے وائرس کے لیے خلیات کو زیادہ سختی سے جکڑنے اور زیادہ مؤثر طریقے سے متاثر کرنے میں مدد ملی۔

تبصرے (0) بند ہیں