فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے فنڈز کی تحقیقات جاری

17 فروری 2021
وکیل نے ایک مرتبہ پھر اسکروٹنی کمیٹی پر پی ٹی آئی کے ان چاروں ملازمین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرنے کے لیے زور ڈالا—فائل فوٹو: آئی این پی
وکیل نے ایک مرتبہ پھر اسکروٹنی کمیٹی پر پی ٹی آئی کے ان چاروں ملازمین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرنے کے لیے زور ڈالا—فائل فوٹو: آئی این پی

اسلام آباد: حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)ننے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے کہا کہ پی ٹی آئی ملازمین کے موصول شدہ فنڈز کی کوئی تفصیلات فارن فنڈنگ کیس میں ای سی پی میں جمع کروائے گئے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنائی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی کے مسلسل دوسرے روز ہوئے اجلاس میں اکبر ایس بابر کی درخواست کا جائزہ لیا گیا۔

درخواست گزار نے پی ٹی آئی کے ان 4 ملازمین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرنے کی استدعا کی تھی جنہیں پی ٹی آئی کے فنانس بورڈ نے پاکستان اور بیرونِ ملک سے عطیات وصول کرنے کا مجاز بنایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے اپنے ملازمین کو عطیات وصول کرنے کی اجازت دی، دستاویز میں انکشاف

پی ٹی آئی ملازمین کو فنڈز اکٹھے کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ یکم جولائی 2011 کو ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی کے موجودہ چیف آرگنائزر اور سینیٹ کے ٹکٹ کے خواہشمند سیف اللہ نیازی، موجودہ سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی، حال ہی میں تعینات ہونے والے پمز کے چیئرمین آف دی بورڈ آف ڈائریکٹرز سردار اظہر طارق خان، پارٹی کے سابق سیکریٹری خزانہ اور پاکستان کے حالیہ سفیر برائے کرغزستان کرنل یونس علی رضا اور طارق آر شیخ شریک تھے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری خزانہ اور مشیر مالیات سراج نے تصدیق کی تھی کہ پارٹی کے مالیاتی بورڈ کی جانب سے ان چاروں ملازمین کو ایک مرتبہ کے لیے اجازت دی گئی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ متحدہ عرب امارات سے ویسٹرن یونین کے ذریعے آنے والی رقم بعد میں پارٹی کے اکاؤنٹ میں ہی گئی تھی۔

تاہم منگل کے روز ہونے والی سماعت میں ظاہر ہوا کہ ایسا نہیں تھا کیوں کہ الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی دستاویزات میں یو اے ای سے فنڈز کی وصولی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے اپنے ہی عہدیدار کے بیان سے لاتعلقی اختیار کرلی

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ پارٹی ملازمین کی جانب سے نقدی یا چیک کے ذریعے فنڈز وصول کرنے کی موصول ہوئی کوئی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنائی گئی۔

درخواست گزار کے وکیل بابر اقبال چودھری نے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری خزانہ کا بیان پڑھا جس میں انہوں نے منی چینجر کے ذریعے یو اے ای سے پی ٹی آئی ملازمین کے نجی بینک اکاؤنٹس میں رقوم کی منتقلی کا اعتراف کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے سیکرٹری خزانہ کی جانب سے اس بیان سے لا تعلقی اختیار کیے جانا باقی ہے کیوں کہ اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے پی ٹی آئی نے ان کی جانب سے غیر قانونی فنڈز وصول کرنے کے بیان سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔

درخواست گزار نے وکیل نے ایک مرتبہ پھر اسکروٹنی کمیٹی پر پی ٹی آئی کے ان چاروں ملازمین کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرنے کے لیے زور ڈالا جنہیں بیرونِ ملک سے رقوم وصولی کی اجازت دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس میں رازداری ختم کرنے کی وزیراعظم کی پیشکش سے لاتعلقی کا اظہار

اب تک 6 بین الاقوامی اکاؤنٹس میں سے کوئی ایک بینک اسٹیٹمنٹ جسے پی ٹی آئی نے تسلیم کیا ہو ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی میں پیش نہیں کی گئی۔

ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم کی جانب سے خصوصی آڈٹ کی تحریری طور پر اجازت دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تو ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے کی کروائے گئے آڈٹ سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی لیکن اب بھی جہاں مناسب ہو اس آڈٹ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

مذکورہ آڈٹ رپورٹ درخواست گزار کے تمام الزامات کی توثیق کرتی ہے جس میں پی ٹی آئی ملازمین کے فرنٹ اکاؤنٹس کو غیر قانونی طور پر فنڈز وصول کرنے کے لیے استعمال کرنا بھی شامل ہے۔

بعدازاں کمیٹی نے آئندہ سماعت کی تاریخ کا اعلان کیے بغیر کارروائی ملتوی کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں